Tafseer-e-Madani - Al-Anbiyaa : 71
وَ نَجَّیْنٰهُ وَ لُوْطًا اِلَى الْاَرْضِ الَّتِیْ بٰرَكْنَا فِیْهَا لِلْعٰلَمِیْنَ
وَنَجَّيْنٰهُ : اور ہم نے اسے بچا لیا وَلُوْطًا : اور لوط اِلَى : طرف الْاَرْضِ : سرزمین الَّتِيْ بٰرَكْنَا : وہ جس میں ہمنے برکت رکھی فِيْهَا : اس میں لِلْعٰلَمِيْنَ : جہانوں کے لیے
اور بچا کر نکال لائے ہم اس کو بھی اور لوط کو بھی اس سرزمین کی طرف جس میں ہم نے طرح طرح کی برکتیں رکھی ہیں دنیا والوں کے لئے2
93 حضرات انبیائے کرام بھی اللہ ہی کے محتاج : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ حضرات انبیائے کرام کے حاجت روا و مشکل کشا بھی اللہ تعالیٰ ہی ہیں۔ اور وہ سب بھی اپنی بےمثال عظمت شان کے باوجود اسی وحدہ لا شریک کے محتاج اور اسی کے در کے سوالی ہوتے ہیں ۔ علیہم الصلاۃ والسلام ۔ سو ارشاد فرمایا گیا " اور ہم ہی نے نجات دی ان کو بھی اور لوط کو بھی " کہ نجات دینا اور مشکلات و مصائب سے بچا نکالنا ہمارا ہی کام اور ہماری ہی شان ہے کہ حاجت روا اور مشکل کشا سب کے ہم ہی ہیں۔ اولیائے و صالحین اور انبیاء ومرسلین تک سب کے سب ہمارے ہی محتاج ہیں۔ اور جب ابو الانبیاء حضرت ابراہیم خلیل اللہ ۔ (علیہ السلام) ۔ بھی مصائب و مشکلات سے رہائی اور خلاصی کے لیے ہمارے ہی محتاج ہیں تو پھر اور کون ہوسکتا ہے جس کو حاجت روا و مشکل کشا کہا جاسکے۔ سو بڑے گمراہ اور بہکے بھٹکے ہوئے ہیں وہ لوگ جو اللہ وحدہ لا شریک کے سوا اس کی مخلوق میں سے کسی کو حاجت روا و مشکل کشا کہتے اور مانتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور یہ ایک طبعی اور معقول امر ہے۔ کیونکہ ما فوق الاسباب طور پر کسی کی حاجت روائی اور مشکل کشائی اسی ذات کی شان اور اسی کا خاصہ ہوسکتا ہے جس کو نہ کوئی حاجت پیش آئے اور نہ وہ کسی مشکل میں مبتلا ہو۔ اور وہ صرف اللہ وحدہ لاشریک ہے جو سب کا حاجت روا و مشکل کشا ہے۔ سب کچھ اسی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے۔ سب اسی کے محتاج ہیں۔ حضرات انبیائے و رسل یہاں تک کہ امام الانبیاء حضرت محمد ﷺ اور ابو الانبیاء حضرت ابراہیم خلیل بھی اسی کی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے محتاج ہیں۔ اور جب ان عظیم الشان اور بےمثال ہستیوں میں سے بھی کوئی حاجت روا و مشکل کشا نہیں تو پھر اور کون ہوسکتا ہے ؟ ۔ والعیاذ باللہ - 94 حضرت ابراہیم کی ہجرت کا ذکر وبیان : سو اس سے حضرت ابراہیم اور لوط کی ارض مبارک کی طرف ہجرت کا ذکر وبیان فرمایا گیا۔ سو جب نوبت یہاں تک پہنچ گئی اور حضرت ابراہیم کا اپنے وطن میں ٹکنا ناممکن ہوگیا تو آپ کو وہاں سے ہجرت کا حکم فرما دیا گیا۔ سو ارشاد ہوتا ہے " اور ہم ہی نکال لائے ان کو اس برکتوں والی زمین کی طرف " یعنی سرزمین شام و فلسطین کی طرف کہ اس میں بیشمار انبیائے کرام تشریف لائے اور ان کے ذریعے دنیا بھر کو پیغام حق و صداقت پہنچا۔ اور ان روحانی اور معنوی برکات کے علاوہ اس سرزمین میں طرح طرح کی ظاہری اور حسی برکات بھی رکھ دیں۔ اس لیے یہ سرزمین ارض مقدس اور ارض مبارک کہلاتی ہے۔ سو ہم نے حضرت ابراہیم اور حضرت لوط کو بچا کر اس برکتوں والی زمین میں پہنچا دیا۔ یہاں پر قرآنی بلاغت کا یہ خاص اور منفرد اسلوب بھی ملاحظہ ہو کہ اس میں { نجینہ } کے فعل کے بعد " الی " کا صلہ لایا گیا جس میں اس بات کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ اس فعل میں ایصال وغیرہ جیسے کسی ایسے مفہوم کی تضمین پائی جاتی ہے جس کا صلہ " الی " آتا ہے۔ اور اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ تھوڑے لفظوں میں زیادہ معنیٰ و مفہوم ادا ہوجاتا ہے جو کہ بلاغت کی جان ہے۔ سو مطلب یہ ہوا کہ ہم نے ابراہیم اور لوط دونوں کو وہاں سے نکال کر برکتوں بھری زمین تک پہنچا دیا۔ ہم نے اپنے ترجمے کے اندر اس مفہوم کو واضح کردیا ہے ۔ والحمد للہ -
Top