Tafseer-e-Madani - Ash-Shu'araa : 225
اَلَمْ تَرَ اَنَّهُمْ فِیْ كُلِّ وَادٍ یَّهِیْمُوْنَۙ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اَنَّهُمْ فِيْ كُلِّ وَادٍ : کہ وہ ہر ادی میں يَّهِيْمُوْنَ : سرگرداں پھرتے ہیں
کیا تم دیکھتے نہیں کہ وہ کس طرح بھٹکتے پھرتے ہیں ہر وادی میں
120 شعراء کا کام ہر وادی میں بھٹکنا ۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں "۔ وادی سے یہاں پر مراد وادی کلام ہے ۔ " اَیْ مِنْ اوَدیۃ الکلام " ۔ (جامع البیان : ج 2 ص 107) ۔ یعنی ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ کبھی وہ کلام کی کسی وادی میں بھٹک رہے ہوتے ہیں اور کبھی کسی وادی میں۔ سو کبھی وہ کسی کی تعریف کر کے اس کو آسمان پر چڑھا دیں گے اور سورج و چاند کی صفات اس میں ثابت کردیں گے۔ اور پھر موڈ بدلا تو اس کو نقائص و معائب کے ایسے گڑھے میں ڈال دیں گے کہ دنیا بھر کے عیوب اس میں جمع کردیں گے۔ کہ شعر کی خاصیت ہی یہ ہے کہ اس میں جتنا جھوٹ اور مبالغہ زیادہ ہوگا اتنا ہی اس کو عمدہ تصور کیا جائے گا۔ سو معلوم ہوا کہ شاعر لوگوں کے سامنے نہ کوئی پاکیزہ مقصد ہوتا ہے نہ کوئی متعین راستہ۔ بلکہ وہ ہمیشہ خواہشات اور اہوا و اَغراض نفس کے پیچھے بہتے چلے جاتے ہیں۔ جبکہ محمد رسول اللہ ﷺ کا مقصد و نصب العین سب سے اعلیٰ وارفع اور اس کا طریق بھی واضح و متعین اور نہایت صاف و ستھرا اور مقدس و پاکیزہ ایسا اور اس قدر کہ اس کی دوسری کوئی نظیر و مثال ممکن ہی نہیں۔ یعنی حق و صدق کی خود پیروی کرنا اور دوسروں کو اس کی دعوت دینا۔ اللہ کی طرف بلانا۔ آخرت کی ترغیب دینا اور دنیا سے بےرغبتی سکھانا اور اس کی حقیقت کو واضح کرنا۔ تاکہ راہ حق کا کوئی راہرو دھوکے کا شکار نہ ہوجائے۔ انسان کو حیوانیت محضہ کے قعر مذلت سے نکال کر شرف انسانیت کے منصب عالی پر بٹھانا اور اس کو اس کے خدا سے ملانا۔ تو ایسے میں آپ کے پیش فرمودہ اس کلام حق ترجمان کو بھلا شاعری سے کوئی نسبت ہی کس طرح ہوسکتی ہے ؟۔
Top