Tafseer-e-Madani - Aal-i-Imraan : 108
وَ اجْعَلْ لِّیْ لِسَانَ صِدْقٍ فِی الْاٰخِرِیْنَۙ
وَاجْعَلْ : اور کر لِّيْ لِسَانَ : میرے لیے۔ میرا ذکر صِدْقٍ : اچھا۔ خیر فِي الْاٰخِرِيْنَ : بعد میں آنے والوں میں
اور نواز دے مجھے سچی ناموری سے پچھلوں میں،
48 سچی ناموری سے سرفرازی کی دعا و درخواست اور اس کی بےمثال قبولیت : سو حضرت ابراہیم نے اپنے رب سے اپنی دعا و درخواست کے ضمن میں مزید عرض کیا اور مجھے سچی ناموری عطا فرما پچھلوں میں۔ یعنی ایسے کمال علم و عمل سے سرفراز فرما جس کی بنا پر پچھلے میری اتباع و پیروی کریں۔ اور اس طرح میرے درجات و مراتب میں ترقی اور اضافہ ہوتا جائے۔ سو اللہ پاک نے اپنے خلیل کی اس دعا کو ایسے امتیازی طور پر شرف قبولیت عطا فرمایا جسکی پوری تاریخ انسانیت میں دوسری کوئی مثال نہیں ملتی۔ اور آپ کو اس لسان صدق ۔ سچی ناموری ۔ سے نوازا گیا جس سے نہ کسی کو اس سے پہلے نوازا گیا نہ اس کے بعد۔ یہود و نصاریٰ اور مشرکین عرب تک سب ہی ابراہیمی ہونے کے دعویدار ہیں اور ان سے انتساب کو اپنے لئے ذریعہ فخر و نجات سمجھتے ہیں۔ اور خود کو ابراہیمی کہلاتے ہیں۔ جبکہ مسلمانوں کے دین و مذہب کی اساس و بنیاد ہی ملت ابراہیمی پر ہے۔ اور امام الانبیاء حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو صاف وصریح طور پر ملت ابراہمی کی پیروی کا حکم دیا گیا۔ ارشاد ہوتا ہے ۔ { اَنِ اتَّبِعْ مِلَّۃَ اِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفًا } ۔ (النحل : 123) ۔ اور خود آنحضرت ۔ ﷺ ۔ نے اپنے آپ کو فخریہ طور پر دعائے ابراہیمی کا ثمرہ قرار دیا۔ اور ہر مسلمان اپنی دن رات کی ہر نماز میں درود ابراہیمی جو کہ سب سے افضل و اعلیٰ درود ہے کی صورت میں کتنی ہی بار حضرت ابراہیم اور آل ابراہیم کا نام لیتا ہے اور ان کیلئے دعاء کرتا ہے۔ اور نماز جیسی مقدس عبادت کے اندر یہ دعا کرتا ہے۔ پھر آپ کے تعمیر کردہ بیت اللہ کی زیارت اور اس کے طواف کے علاوہ دیگر مناسک حج کی ادائیگی کے ضمن میں آپ (علیہ السلام) کی جن یادگاروں کو ملحوظ رکھا گیا ہے ان کے کہنے ہی کیا۔ اور اس طرح جو اجر وثواب حضرت ابراہیم کو ملتا ہے اور لگاتار ملتا جا رہا ہے اس کا اندازہ ہی کون کرسکتا ہے سوائے حضرت حق ۔ جل مجدہ ۔ کے۔ پھر قرآن حکیم میں آپ کا ذکر جگہ جگہ اور طرح طرح سے فرمایا گیا۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ { اذکر } جیسے صاف وصریح اوامر اور ارشادات کے ذریعے حضرت امام الانبیائ ﷺ کو اور آپ کے توسط سے آپکی امت کے ہر داعی اور ہر فرد کو حضرت ابراہیم کے تذکرے اور ذکر خیر کی ہدایت فرمائی گئی ہے۔ سو اس طرح دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں کوئی لمحہ اور لحظہ ایسا نہیں گزرتا کہ پورے کرہ ارض پر حضرت ابراہیم کا ذکر خیر کسی نہ کسی شکل میں نہ ہو رہا ہو۔ تو کیا اس ذکر خیر اور لسان صدق کی کوئی اور مثال کہیں پائی جاتی ہے ؟ یا پائی جانی ممکن بھی ہوسکتی ہے ؟ نہیں اور ہرگز نہیں ۔ سبحان اللہ ۔ کیا کہنے حضرت حق کی شان نوازش و عطا کے ؟ ۔ اللہ ہمیں بھی محض اپنے فضل و کرم اور اپنی خاص عنایت سے نواز دے ۔ آمین ثم آمین۔
Top