Tafseer-e-Madani - An-Naml : 68
لَقَدْ وُعِدْنَا هٰذَا نَحْنُ وَ اٰبَآؤُنَا مِنْ قَبْلُ١ۙ اِنْ هٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ
لَقَدْ وُعِدْنَا : تحقیق وعدہ کیا گیا ہم سے هٰذَا : یہ۔ یہی نَحْنُ : ہم وَاٰبَآؤُنَا : اور ہمارے باپ دادا مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل اِنْ : نہیں هٰذَآ : یہ اِلَّآ : مگر۔ صرف اَسَاطِيْرُ : کہانیاں الْاَوَّلِيْنَ : اگلے
اس کا وعدہ تو ہم سے اور اس سے پہلے ہمارے باپ دادوں سے بھی ہوتا چلا آیا ہے یہ تو محض کہانیاں ہیں پہلے لوگوں کی
78 اور کہتے ہیں کہ یہ تو محض کہانیاں ہیں پہلے لوگوں کی : یہی تعجب اور یہی منطق آج بھی بہت سے لوگوں کا طرہ امتیاز ہے۔ مگر یہ نادان اتنا نہیں سمجھتے کہ اللہ پاک کے یہاں ایک قانون مہلت و امہال ہے۔ اور ہر چیز کا اس نے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے۔ اللہ چاہے تو سب کچھ فوراً کرسکتا ہے۔ مگر اس کا قانون اور دستور یہ ہے کہ ہر چیز کا تحقق و وقوع اس کے وقت مقرر کے ساتھ مربوط ہے۔ جس طرح شادی کے بعد بچے کا پیدا ہونا۔ پھر اس کا جوانی اور بڑھاپے کو پہچنا۔ دن رات کا اپنے اپنے وقت پر آنا جانا، سورج کا چڑھنا ڈوبنا، ہر درخت اور پودے کا بڑھنا اور پھل پھول دینا وغیرہ وغیرہ ہر چیز اپنے وقت مقرر کے ساتھ مربوط ہے اس سے پہلے نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح قیامت کا بھی ایک وقت مقرر ہے۔ وہ اس سے پہلے نہیں آسکتی۔ اور اس کے اس وقت کا علم اللہ پاک ہی کو ہے۔ پھر ایسے لوگ اس کے لئے یہ مطالبہ آخر کیوں کرتے ہیں کہ اس کو اپنے وقت سے پہلے ابھی لا کر دکھاؤ جبکہ دنیا ساری میں اس کا قانون امہال و تاجیل ہر طرف جاری وساری ہے۔ بہرکیف ان منکرین کا کہنا تھا کہ اول تو قیامت کا بپا ہونا ہی بعید از قیاس ہے۔ بھلا جب ہم مر کر مٹی ہوجائیں گے تو ہم دوبارہ کس طرح اٹھائے جائیں گے۔ اور دوسری بات یہ کہ ایسا اس سے پہلے ہمارے باپ دادا سے بھی کہا جاتا رہا لیکن یہ وعدہ اب تک پورا نہیں ہوا۔ لہذا یہ ایسی کہانیاں ہیں جو پہلوں سے نقل ہوتی چلی آرہی ہیں اور بس۔ سو یہی نتیجہ ہوتا ہے عناد اور ہٹ دھرمی کا ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top