Tafseer-e-Madani - Al-Qasas : 62
وَ یَوْمَ یُنَادِیْهِمْ فَیَقُوْلُ اَیْنَ شُرَكَآءِیَ الَّذِیْنَ كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ
وَيَوْمَ : اور جس دن يُنَادِيْهِمْ : وہ پکارے گا انہیں فَيَقُوْلُ : پس کہے گا وہ اَيْنَ : کہاں شُرَكَآءِيَ : میرے شریک الَّذِيْنَ : وہ جنہیں كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ : تم گمان کرتے تھے
اور یاد کرو لوگوں اس ہولناک دن کو کہ جس دن اللہ ان کو پکارے گا پھر وہ ان سے پوچھے گا کہ کہاں ہیں میرے وہ شریک جن کا تم بڑا دعوی کرتے تھے ؟
87 مشرکوں کی تذلیل کا ایک منظر اور ایک تحریف کا جواب : سو اس سے مشرکوں کی تذلیل و تحقیر کے ایک منظر کو پیش فرمایا گیا ہے اور اس سے متعلق اہل بدعت کی ایک تحریف کا جواب بھی دیا جاتا ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ " یاد کرو اس دن کو کہ جس دن اللہ ان کو پکار کر پوچھے گا کہاں ہیں میرے وہ شریک جن کا تم لوگوں کو بڑا گھمنڈ تھا "۔ کہ وہ ہمیں عذاب سے چھڑا دیں گے۔ { شرکائ } کا لفظ عام ہے۔ ہر شریک کو شامل ہے۔ خواہ اس کا تعلق بتوں اور بےجان مورتیوں سے ہو یا انسانوں، جنوں اور پیغمبروں، فرشتوں وغیرہ سے۔ جس کسی کو بھی کسی نے خدائی صفات و اختیارات میں شریک ٹھہرایا ہوگا وہ سب اس میں داخل ہیں۔ اور یہی قول جمہور مفسرین کرام کا قول ہے۔ مگر ہمارے دور کے اہل بدعت کا کہنا ہے کہ اس قسم کی آیات میں { شرکاء } سے مراد صرف بت ہیں۔ تاکہ اس طرح ایسے لوگوں کے لئے کاروبار شرک و بدعت پر زد نہ پڑنے پائے اور ان کے لئے قبر پرستی اور مخلوق پرستی کے چور دروازے کھلے رہیں۔ اور ان کے بعض بڑوں نے خوف خدا سے عاری ہو کر اپنے تفسیری ۔ بلکہ تحریفی ۔ حواشی میں اس مقام پر یہاں تک لکھ دیا ہے کہ " دیو بند کے فضلاء اس جیسی تمام آیات کو اولیاء اللہ اور مشائخِ عظام پر چسپاں کرتے ہیں کہ ان کے مریدوں سے کہا جائے گا کہ اپنے پیروں کو بلا لو۔ حالانکہ یہ آیت بتوں سے اور مشرکوں سے متعلق ہے " اب ذرا آپ یہاں پر چند حوالے بھی ملاحظہ فرما لیں کہ اسلاف کرام اور جمہور مفسرین کا اس بارے کیا کہنا ہے اور یہ صاحب کیا کہتے ہیں ؟ سو جمہور علماء و مفسرین کرام کی تصریحات اس بارے اس طرح ہیں ۔ " أیْ شَیَاطِیْنُھُمْ وَسَادَتُھُمْ فِی الضَّلَال " ۔ (جامع البیان : ج 2، 921) ۔ أیْ الاْصْنَام والْاَنْدادُ الّذین عَبْدَتُّمْوُھم مِنْ دُوْنِیْ ۔ (صفوۃ : ج 2، 144 و مختصر ابن کثیر ج 3 21) ۔ " وَالْمَرَادُ کُلُّ مَنْ عُبِدَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مِّنْ مَّلَکٍ أوْ جِنٍّ أَوْ إِنْسِ أَوْ کَوْکَبٍ أَوْ صَنَمِ أَوْ غیر ذالک " ۔ (روح المعانی : ج 2 ، 100 البحر : ج 20 100 و المراغی ج 20 ص 81 وغیرہ ) ۔ ان مختصر حواشی میں اس سے زیادہ کی گنجائش نہیں اگر اللہ پاک کی توفیق سے مفصل تفسیر لکھنے کی سعادت نصیب ہوگئی تو انشاء اللہ وہاں پورے شرح و بسط سے اس کو بیان کیا جائے گا۔ بہرحال یہاں اتنا ہی کافی ہے۔ تو کیا صدیاں پہلے گزرنے والے یہ اعلام المفسرین سب دیوبند کے فضلاء تھے ؟ سو جب کوئی اپنی آنکھوں پر تعصب اور ہٹ دھرمی کی سیاہ پٹی باندھ لے تو اس کا حشر یہی ہوتا ہے جس کا نمونہ اہل بدعت کے ان بڑے صاحب نے اپنے ان تحریفی حواشی میں پیش کیا ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ بہرکیف ثقہ مفسرین کرام کے ان حوالوں سے ظاہر اور واضح ہوگیا کہ " شرکائ " سے مراد عام ہے۔ جس کسی مخلوق کو بھی حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ کر پوجا پکارا جائے وہ سب اس میں داخل ہے خواہ وہ کچھ بھی ہو اور کوئی بھی ہو۔ باقی رہ گئے وہ اللہ والے جن کی پرستش ان کی مرضی کے بغیر بلکہ اس کے خلاف کی گئی ہوگی جیسے حضرت عزیر (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جن کو خدا کا بیٹا کہا گیا اور حضرت شیخ عبد القادر جیلانی ۔ (رح) ۔ جن کو اہل بدعت غوث ۔ فریاد رس ۔ بلکہ غوث اعظم کہہ کر پکارتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ تو ایسی تمام پاکیزہ ہستیاں بلاشبہ اس طرح کے ہر شرک سے بری اور پاک ہیں کہ ان کا اس میں کوئی قصور نہیں۔ اس لئے ان پر کوئی الزام نہیں۔ انہوں نے تو ساری عمر توحید ہی کا درس دیا اور سب کو ایک اللہ ہی کی عبادت کی دعوت دی اور تبلیغ فرمائی۔ لیکن بعد میں ظالموں نے انہی کے نام پر طرح طرح سے شرک کا کاروبار کیا ۔ والعیاذ باللہ -
Top