Tafseer-e-Madani - Al-Qasas : 63
قَالَ الَّذِیْنَ حَقَّ عَلَیْهِمُ الْقَوْلُ رَبَّنَا هٰۤؤُلَآءِ الَّذِیْنَ اَغْوَیْنَا١ۚ اَغْوَیْنٰهُمْ كَمَا غَوَیْنَا١ۚ تَبَرَّاْنَاۤ اِلَیْكَ١٘ مَا كَانُوْۤا اِیَّانَا یَعْبُدُوْنَ
قَالَ : کہیں گے الَّذِيْنَ : وہ جو حَقَّ : ثابت ہوگیا عَلَيْهِمُ : ان پر الْقَوْلُ : حکم (عذاب) رَبَّنَا : اے ہمارے رب هٰٓؤُلَآءِ : یہ ہیں الَّذِيْنَ : وہ جنہیں اَغْوَيْنَا : ہم نے بہکایا اَغْوَيْنٰهُمْ : ہم نے بہکایا انہیں كَمَا : جیسے غَوَيْنَا : ہم بہکے تَبَرَّاْنَآ : ہم بیزاری کرتے ہیں اِلَيْكَ : تیری طرف مَا كَانُوْٓا : وہ نہ تھے اِيَّانَا : صرف ہماری يَعْبُدُوْنَ : بندگی کرتے
اس پر بول اٹھیں گے وہ لوگ جن پر پکی ہوچکی ہوگی ہماری بات کہ اے ہمارے رب یہی ہیں وہ لوگ جن کو ہم نے گمراہ کیا تھا ہم نے ان کو اسی طرح گمراہ کیا تھا جس طرح کہ ہم خود گمراہ تھے ہم آپ کے سامنے براءت کا اظہار کرتے ہیں یہ لوگ ہماری بندگی نہیں کرتے تھے (3)
88 مشرکوں اور ان کے لیڈروں کے درمیان جوتا بازی کا ایک منظر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " تب بول اٹھیں گے وہ لوگ جن پر پکی ہوچکی ہوگی ہماری بات "۔ یعنی ہماری یہ بات کہ ہم نے جہنم کو جنوں اور انسانوں سے بھرنا ہے ۔ { لاَمْلَئَنَّ جَہَنَّمْ مِنَ الْجِنَّۃِ و النَّاسِ اَجْمَعِیْنِ } ۔ یہاں پر اس سے مراد ہیں وہ مشرک لوگ جن پر اللہ تعالیٰ کا فیصلہ عذاب صادر ہوچکا۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ قیامت کے روز یہ مشرک لوگ اپنے آخری عذاب کے طور پر اپنے گمراہ کن لیڈروں کی طرف اشارہ کرکے کہیں گے کہ یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا۔ اگر یہ لوگ ہمیں گمراہ نہ کرتے تو ہم گمراہ نہ ہوتے۔ تو اس کے جواب میں ان کے وہ گمراہ کن لیڈر کہیں گے کہ ہم نے ان کو اسی طرح گمراہ کیا جس طرح ہم خود گمراہ تھے۔ یعنی جو کچھ ہم خود تھے وہی کچھ ہم نے ان کو بتایا۔ لیکن اصل قصور ان کا خود اپنا ہے۔ یہ خود شامت زدہ اور بدبخت تھے جنہوں نے ازخود ہماری بات کو مانا۔ یہ اس آیت کریمہ کی تفسیر کا ایک احتمال اور قول ہے۔ اور یہ قول سورة اعراف کی آیت نمبر 38 اور 39 کے مضمون کے مطابق ہے۔ جبکہ دوسرا قول و احتمال اس بارے یہ ہے کہ اس میں { الذین حق علیہم القول } ۔ سے مراد مشرک نہیں بلکہ ان کے لیڈر ہیں۔ وہ کہیں گے کہ اے ہمارے رب یہ ہیں وہ لوگ جنکو ہم نے گمراہ کیا تھا۔ کچھ مفسرین کرام نے اسی قول و احتمال کو اپنایا ہے۔ مآل اور مدعا کے اعتبار سے ان دونوں باتوں میں کوئی خاص فرق بہرحال نہیں پڑتا۔ بہرکیف اس کے بعد انکے وہ لیڈر کہیں گے کہ ہم تیرے حضور ان کے اعمال سے اپنی براءت کا اعلان کرتے ہیں۔ یہ لوگ ہماری پوجا نہیں کرتے تھے بلکہ یہ خود اپنی خواہشات کی پوجا کرتے تھے۔ اور اسی بنا پر یہ ہمارے پیچھے چلتے تھے۔ اس لیے ہم پر ان کی گمراہی کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ بلکہ اپنی گمراہی کے ذمہ دار یہ خود ہیں۔ 89 مجرموں کی طرف سے اقرار جرم کا ذکر وبیان : سو اس سے گمراہ کن لیڈروں کی طرف سے اپنے جرم ضلال واضلال کے اقرار و اعتراف کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ اس موقعہ پر وہ گمراہ کن لیڈر اپنے جرم کا اقرار و اعتراف کرتے ہوئے صاف اور صریح طور پر کہیں گے کہ یہ ہیں وہ لوگ جن کو ہم نے گمراہ کیا تھا۔ جس طرح ہم خود گمراہ تھے اسی طرح ہم نے ان کو گمراہ کیا۔ یعنی جس طرح ہم لوگ اپنے ارادئہ و اختیار سے خود گمراہ ہوئے اسی طرح یہ لوگ بھی کسی جبر واکراہ کے بغیر باختیار خود گمراہ ہوئے۔ پس ہم دونوں برابر ہیں۔ سوال ہوگا چیلوں سے اور بول پڑیں گے ان کے گرو کہ اپنے کئے کا انہیں خوب پتہ ہوگا۔ بہرکیف اس طرح وہ گرو اور لیڈر اپنے گمراہ ہونے اور گمراہ کرنے کے جرم کا اقرار و اعتراف کریں گے جس کے نتیجے میں ان کو اپنے کیے کرائے کا بھگتان بھگتنا ہوگا۔ سو قرآن حکیم کا یہ دنیا پر کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے غیب کے اس جہاں میں پیش آنے والے ان حقائق کو اس قدر صراحت و وضاحت کے ساتھ اتنا پیشگی اس دنیا ہی میں بتادیا جن کے جاننے کا دوسرا کوئی ذریعہ ممکن ہی نہیں۔ تاکہ جس نے بچنا ہو بچ جائے۔ لیکن ناشکری اور بےانصاف دنیا ہے کہ وہ اس کے باوجود خواب غفلت میں پڑی ہے۔ نہ اس کو اس کتاب حکیم کے اس احسان بےمثال کا کوئی احساس ہے اور نہ اپنے مآل و انجام کی کوئی فکر و پرواہ ۔ والعیاذ باللہ ۔ اللہ ہمیشہ اپنے حفظ وامان میں رکھے ۔ آمین۔ 90 گمراہ کن لیڈروں کا اپنے پیرؤوں کی پرستش کا انکار : سو ارشاد فرمایا گیا کہ گمراہ کن لیڈر حق تعالیٰ کے حضور عرض کریں گے کہ ہم تیرے حضور ان لوگوں کے اعمال سے اپنی براءت کا اظہار و اعلان کرتے ہیں۔ یہ لوگ ہماری پوجا نہیں کرتے تھے۔ بلکہ یہ سب اپنی خواہشات کے پیچھے چل رہے تھے۔ اور اپنی خواہشات کی تکمیل ہی کے لئے انہوں نے اس طرح کے ہتھکنڈے اختیار کر رکھے تھے ۔ والعیاذ باللہ ۔ اور اپنی خواہشات کی تکمیل کا سامان چونکہ ان کو ہماری پیروی اور پوجا ہی میں ملتا تھا اس لیے یہ حق سے منہ موڑ کر ہمارے پیچھے چلتے اور ہماری پوجا کرتے تھے جو کہ اصل میں ان کی اپنی ہی خواہشات کی پوجا اور پرستش تھی۔ لہذا ہمارے اوپر ان کی کوئی ذمہ داری نہیں ہوسکتی۔ انہوں نے جو کچھ کیا اپنے آزادی ومرضی اور اپنی خواہش اور پسند کے مطابق کیا۔ اس لیے اپنے کیے کرائے کے ذمہ دار یہ لوگ خود ہیں ۔ والعیاذ باللہ -
Top