Tafseer-e-Madani - Al-Ankaboot : 34
اِنَّا مُنْزِلُوْنَ عَلٰۤى اَهْلِ هٰذِهِ الْقَرْیَةِ رِجْزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ
اِنَّا : بیشک ہم مُنْزِلُوْنَ : نازل کرنے والے عَلٰٓي : پر اَهْلِ : لوگ هٰذِهِ الْقَرْيَةِ : اس کی بستی رِجْزًا : عذاب مِّنَ السَّمَآءِ : آسمان سے بِمَا : اس وجہ سے کہ كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ : وہ بدکاری کرتے تھے
ہم نے اتارنا ہے اس بستی کے باشندوں پر ایک بڑا ہی ہولناک عذاب آسمان سے ان کی ان بدکاریوں کی بناء پر جو کہ یہ لوگ اب تک کرتے چلے آئے ہیں
45 قوم لوط پر ہولناک عذاب نازل کرنے کی خبر : بہرکیف فرشتوں نے حضرت لوط کو نجات کی خوشخبری دینے کے بعد ان کو اس فیصلہ خداوندی سے بھی آگاہ کردیا کہ ہم نے اس بستی والوں پر اب آسمانی قہر نازل کرنا ہے۔ ان کی ان بدکاریوں کی بنا پر جو یہ لوگ اب تک کرتے رہے ہیں۔ یعنی اس حقیقت سے ان کو مطلع کردیا کہ ان بدبختوں کی مدت مہلت اب ختم ہوچکی ہے اور اب انہوں نے اپنے آخری انجام کو پہنچ کر رہنا ہے۔ معلوم ہوا کہ گناہوں کی اصل اور پوری سزا تو اگرچہ انسان کو آخرت میں ہی ملے گی۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارے میں ارشاد فرمایا گیا ۔ { وَ وُفِّیَتْ کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَت وَہُمْ لاَ یُظْلَمُوْنَ } ۔ (آل عمران :25) مگر کبھی کبھی اور کچھ نہ کچھ سزا اس دنیا میں بھی ملتی ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ جیسا کہ دوسری بہت سی نصوص میں اس کی تصریح موجود ہے اور حکیم الامت حضرت تھانوی ۔ نور اللہ مرقدہ ۔ نے اپنے رسالے " جزاء الاعمال " میں ان نصوص کو جمع فرما دیا ہے ۔ فَجَزَاہ اللّٰہُ خَیْرًا ۔ بہرکیف فرشتوں نے حضرت لوط کو بتایا کہ ہم نے ان لوگوں پر ان کی بدکاریوں کی بنا پر ایک سخت عذاب اتارنا ہے اور اس عذاب کی ہولناکی واضح کرنے کیلئے ایک تو اس کو { رجز } کے لفظ سے تعبیر فرمایا گیا جس کے معنیٰ دہلا اور تھرا دینے والے عذاب کے ہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ اور پھر اس کے ساتھ { من السمائ } کی قید سے اس کی شدت کو اور سخت کردیا گیا۔ جیسا کہ ہم لوگ اس بارے میں اپنے محاورے میں قہر الہی یا آسمانی عذاب کے الفاظ استعمال کرتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ اللہ ہمیشہ اپنی پناہ میں رکھے ۔ آمین ثم آمین۔
Top