Tafseer-e-Madani - Aal-i-Imraan : 100
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تُطِیْعُوْا فَرِیْقًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ یَرُدُّوْكُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْ كٰفِرِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اِنْ : اگر تُطِيْعُوْا : تم کہا مانو گے فَرِيْقًا : ایک گروہ مِّنَ : سے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اُوْتُوا الْكِتٰبَ : دی گئی کتاب يَرُدُّوْكُمْ : وہ پھیر دینگے تمہیں بَعْدَ : بعد اِيْمَانِكُمْ : تمہارے ایمان كٰفِرِيْنَ : حالت کفر
اے وہ لوگو، جو ایمان لائے ہو، اگر تم نے بات مان لی ان لوگوں میں سے ایک گروہ کی جن کو کتاب دی گئی ہے، تو وہ یقینا تمہیں تمہارے ایمان کے بعد (راہ حق سے) پھیر کر کافر بنادیں گے4
204 دشمن کی شرانگیزیوں سے ہوشیار و محتاط رہنے کی تعلیم و تلقین : سو اہل ایمان کو خطاب کر کے اس بارے تنبیہ فرمائی گئی کہ اگر تم نے اہل کتاب کے ایک گروہ کی بات مان لی جو کہ تم پر حسد کی آگ میں جل رہا ہے، اور تمہارا راہ حق پر قائم رہنا اس کو گوارا نہیں، تو وہ تمہیں تمہارے ایمان سے پھیر کر کافر بنادیگا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ پس تمہیں ان سے ہر حال میں ہوشیار رہنا ہوگا۔ روایات کے مطابق شماس بن قیس نامی ایک یہودی نے، جو کہ اسلام اور مسلمانوں سے حد درجہ حسد اور بغض رکھتا تھا، ایک دفعہ انصار کے ایک مجمع میں یہ دیکھ کر جل گیا کہ اوس اور خزرج کے وہ دونوں قبیلے جو کہ اسلام سے قبل آپس میں ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے، اور ان کے درمیان طویل جنگیں بھی ہوچکی تھیں، نور اسلام کی رحمت و برکت سے وہ اب آپس میں اس طرح شیر و شکر ہوگئے ہیں۔ اور اسلام کی انقلاب آفریں تعلیمات کی یہ تاثیر و برکت اسے ایک آنکھ نہ بھائی، تو اس نے ان کے درمیان شر انگیزی پھیلانے کے لئے ان کو جنگ بعاث وغیرہ کی خونریزی کی یاد دلائی۔ اور اس دور کے کچھ اشعار ان کو سنائے، جس سے ان کے درمیان فتنے اور فساد کی چنگاریاں بھڑک اٹھیں، اور ان دونوں گروہوں نے اپنی اپنی تلواریں اٹھا لیں، اور وہ لڑنے اور مرنے مارنے کیلئے تیار ہوگئے۔ آٰنحضرت ﷺ کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو آپ ﷺ نے تشریف لا کر ان کو سمجھایا کہ یہ کیا حرکت ہے جس پر تم لوگ آمادہ ہوگئے ہو ؟ اس کے بعد کہ تم کو اللہ نے نور ہدایت سے سرفراز فرما دیا، اور اسلام کی حقیقی اور سچی عزت سے تم کو نواز دیا، اور جبکہ میں بذات خود تمہارے درمیان موجودہوں۔ تو اس پر وہ سب حضرات ٹھنڈے پڑگئے، اور انہوں نے اپنے غصے تھوک دیئے، اور سمجھ گئے کہ یہ سب شیطانی اکساہٹ کا نتیجہ تھا۔ اپنے کئے پر وہ نادم ہوئے اور پھر آپس میں بغل گیر ہوگئے تو اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔ اور اس میں انکو خبردار کیا گیا اور دشمن کی شرانگیزی سے ہوشیار و محتاط رہنے کی تلقین فرمائی گئی۔ کیونکہ شیطان ہمیشہ انسان کی تاک میں رہتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top