Tafseer-e-Madani - Aal-i-Imraan : 33
اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰۤى اٰدَمَ وَ نُوْحًا وَّ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ وَ اٰلَ عِمْرٰنَ عَلَى الْعٰلَمِیْنَۙ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ اصْطَفٰٓي : چن لیا اٰدَمَ : آدم وَنُوْحًا : اور نوح وَّاٰلَ اِبْرٰهِيْمَ : اور ابراہیم کا گھرانہ وَاٰلَ عِمْرٰنَ : اور عمران کا گھرانہ عَلَي : پر الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہان
بیشک اللہ نے چن لیا آدم اور نوح کو، اور آل ابراہیم اور آل عمران کو، سب جہانوں پر،
75 اصطفائ خداوندی اور اس کا تقاضا : سو اس ارشاد سے اللہ تعالیٰ کی کچھ چنی ہوئی ہستیوں کا ذکر فرمایا گیا اور ان کی عظمت شان کے مقتضیٰ کو واضح فرمایا گیا ہے۔ سو ان حضرات کو اس نے سب جہانوں پر چن لیا۔ یہاں تک کہ فرشتوں پر بھی کہ " عالمین " میں وہ بھی داخل اور شامل ہیں۔ (جامع البیان، محاسن التاویل وغیرہ) ۔ اور یہ اس لئے کہ ان حضرات کو حضرت حق ۔ جل مجدہ ۔ نے ایسے ایسے خصائص و مزایا سے نوازا تھا، جو اور کسی کے حصے میں نہیں آئے۔ مثلًا حضرت آدم (علیہ الصلوۃ والسلام) کو حق تعالیٰ نے اپنے ہاتھوں سے (یعنی خاص اہتمام کے ساتھ) تخلیق فرمایا، جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے { خَلَقْتُہٗ بِیَدَیَّ } (صٓ۔ 75) پھر ان میں اپنی طرف سے روح پھونکی۔ پھر ان کو اپنی خلافت و نیابت کے تاج سے سرفراز فرمایا۔ پھر ان کو مسجود ملائکہ بنایا اور ابلیس کو ان کے آگے سجدہ نہ کرنے اور ان کی ہمسری اور ان سے برتری کا دعوی کرنے کی بنا پر ہمیشہ ہمیش کے لئے طوق لعنت میں جکڑ دیا گیا۔ اور انکو تمام نوع انسانی کی ابوّت یعنی سب کے باپ ہونے کے شرف سے نوازا۔ اسی طرح ان کو سب سے پہلے نبی ہونے کا اعزاز بخشا۔ اور حضرت نوح کو یہ اعزاز بخشا کہ ان کو سب سے پہلا ایسا رسول بنایا جن کو شرک اور بت پرستی کی تردید کیلئے مبعوث فرمایا گیا۔ پھر انہوں نے ساڑھے نو سو برس تک۔ اتنی صدیوں پر محیط و مشتمل طویل زمانے تک ۔ بےمثل طریق پر حق کی تبلیغ اور باطل کی تردید فرمائی۔ پھر ان کی دعوت کا انکار کرنے والوں کو آخرکار اس عظیم الشان، بےمثل اور ہولناک طوفان سے ہمیشہ کیلئے غرق کر کے جہنم رسیدکر دیا گیا، جس جیسا عذاب دوسری کسی قوم پر نہیں آیا، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا { مِمَّا خَطِٓیْئٰتِہِمْ اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًا فَلَمْ یَجِدُوْا لَہُمْ مِّنْ دُوْن اللّٰہ اَنْصَاراً } (نوح۔ 25) اور اس طوفان سے جو کہ " طوفان نوح " ہی کے نام سے ایک ضرب المثل کے طور پر مشہور ہوگیا، حضرت نوح کو اور آپ کے ماننے والوں کو بچانے کیلئے خاص انتظام فرمایا گیا۔ اور اپنے خاص کرم سے، اور اپنی خاص نگرانی میں، ان سے ایک ایسی عظیم الشان کشتی بنوائی گئی جو کہ نجات کا نشان بن گئی۔ اور طوفان نوح کی طرح کشتی نوح بھی ایک ضرب المثل بن گئی۔ اور پھر آنجناب کے بعد آنے والی ساری نسل انسانی آپ اور آپکے ساتھیوں ہی سے چلی، اور آپ آدم ثانی قرار پائے۔ اور آپ کی صدیوں پر محیط اس عظیم الشان تاریخ میں عبرت و بصیرت کے ایسے عظیم الشان اور بےمثل نمونے دکھلائے گئے جو رہتی دنیا تک ہمیشہ کیلئے نشان راہ بن گئے۔ اور آل ابراہیم کو یہ عظیم الشان شرف و امتیاز بخشا گیا کہ حضرت ابراہیم کے بعد تشریف لانے والے تمام انبیائے کرام کا تعلق آپ ہی کی نسل سے رہا ہے۔ اور اس طرح حضرت ابراہیم " ابو الانبیاء " اور " جد الانبیائ " قرار پائے۔ اور آپ کے ایک فرزند ارجمند حضرت اسماعیل (علیہ الصلوۃ والسلام) کی نسل سے خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ تشریف لائے، جو کہ سب نبیوں سے افضل اور سب کے امام قرار پائے، اور جن کو بعثت عامہ کے شرف عظیم سے نوازا گیا، اور جن کی نبوت و رسالت کو قیامت تک جاری وساری فرمایا گیا۔ جبکہ آپ ﷺ کے دوسرے فرزند ارجمند حضرت اسحاق (علیہ الصلوۃ والسلام) کی نسل سے بنی اسرائیل کے تمام انبیاء و رسل تشریف لائے۔ اور آپ ان سب کے جد امجد قرار پائے۔ اسی طرح آل عمران کو بھی خاص انعامات سے نوازا گیا۔ عمران سے یہاں کونسے عمران مراد ہیں۔ عمران بن ماثان جو کہ حضرت مریم کے والد اور حضرت عیسیٰ کے جد امجد تھے، یا عمران بن احمد بن قاہت بن لاوی جو کہ حضرت موسیٰ و ہارون ۔ علیہما الصلوۃ والسلام ۔ کے والد تھے ؟ حضرات مفسرین کرام سے اس بارے دونوں قول مروی ہیں۔ (معارف للکاندھلوی (رح) ) ۔ سیاق وسباق سے اگرچہ یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اس سے مراد عمران بن ماثان ہیں جو کہ حضرت مریم کے والد ہیں، کہ آگے قصہ بھی انہی کا آ رہا ہے۔ اور اس لئے کہ اس سلسلہ گفتگو کا تعلق نصاری بخران ہی سے ہے جو کہ حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم کی الوہیت کے قائل اور مدعی تھے، مگر اس کے باوجود پہلے قول کو بھی بالکلیہ رد نہیں کیا جاسکتا۔ جو بھی ہو اور عمران سے مراد جو بھی بزرگ لئے جائیں، درست ہے۔ کیونکہ بہرصورت آل عمران کو اللہ پاک نے اپنی خاص عنایتوں اور نوازشوں سے نوازا تھا ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ سو ان بزرگوں کی تذکیر و یاددہانی سے ایک طرف ان کی اولاد اور ان سے تعلق رکھنے والوں کیلئے یہ درس ہے کہ دیکھو تمہارے یہ بڑے اور آباؤ اجداد کس طرح کے لوگ تھے، اور تمہارے طور طریقے کیا ہیں ؟ اور کیا ہونے چاہئیں ؟ اور دوسری طرف یہ کہ یہ سب کے سب ایک دوسرے کی اولاد اور اللہ تعالیٰ کے نیک اور برگزیدہ بندے تھے۔ ان میں خدائی یا الوہیت کی کوئی صفت نہیں تھی۔ اس لیے جن لوگوں نے ان میں سے کسی کو خدائی صفات کا حامل قرار دیا انہوں نے شرک کیا اور بڑے ظلم کا ارتکاب کیا ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ مِنْ کُل شَائِبَۃٍ مِنْ شَوَائِب الشِّرْک وَالاِنْحِرَافِ-
Top