Tafseer-e-Madani - Aal-i-Imraan : 35
اِذْ قَالَتِ امْرَاَتُ عِمْرٰنَ رَبِّ اِنِّیْ نَذَرْتُ لَكَ مَا فِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّیْ١ۚ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
اِذْ : جب قَالَتِ : کہا امْرَاَتُ عِمْرٰنَ : بی بی عمران رَبِّ : اے میرے رب اِنِّىْ : بیشک میں نَذَرْتُ : میں نے نذر کیا لَكَ : تیرے لیے مَا : جو فِيْ بَطْنِىْ : میرے پیٹ میں مُحَرَّرًا : آزاد کیا ہوا فَتَقَبَّلْ : سو تو قبول کرلے مِنِّىْ : مجھ سے اِنَّكَ : بیشک تو اَنْتَ : تو السَّمِيْعُ : سننے والا الْعَلِيْمُ : جاننے والا
(اور وہ وقت بھی یاد کرنے کے لائق ہے کہ) جب عمران کی بیوی نے کہا کہ اے میرے رب ! میں نے تیرے نذر کردیا اپنے اس بچے کو جو کہ میرے پیٹ میں ہے، سب سے آزاد کر کے، پس تو (اے میرے مالک، اپنے کرم سے میری اس نذر کو) قبول فرما لے، بیشک تو ہی ہے (ہر کسی کی) سنتا (سب کچھ) جانتا،
77 عمران کی بیوی کی نذر کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ وہ بھی لائق ذکر وبیان ہے کہ جب عمران کی بیوی نے جن کا نام حنہ بنت فاقوذا تھا اس طرح کہا۔ اور انہوں نے اس وقت کے اپنے رواج کے مطابق یہ نذر مانی تھی۔ (معارف وغیرہ) ۔ بہرکیف یہاں سے ان مقدس اور برگزیدہ ہستیوں کے حالات کا تفصیلی ذکر شروع ہوتا ہے تاکہ اس سے ان کی اصلی شان واضح ہوجائے اور ان کے بارے میں بعد کے لوگوں نے افراط وتفریط سے کام لیکر جن طرح طرح کی ہولناک اور تباہ کن گمراہیوں کا ارتکاب کیا تھا ان کی حقیقت واضح ہوجائے، خاص کر حضرت عیسیٰ کے بارے میں، جن کے بارے میں یہود نے تفریط سے کام لیکر اور ان کی جناب میں گستاخی اور توہین کا ارتکاب کرکے اپنے لیے ہلاکت و تباہی کا سامان کیا، جبکہ عیسائیوں نے ان کے بارے میں افراط اور غلو سے کام لیکر ان کو خدائی صفات کا حامل اور خدا کی خدائی میں شریک قرار دیا۔ اور اس طرح انہوں نے اپنے آپ کو دائمی ہلاکت و تباہی کے گڑھے میں ڈالا ۔ والعیاذ باللہ ۔ اس لیے ان کا ذکر یہاں پر ان کی والدہ ماجدہ کی پیدائش کے ذکر سے کیا جارہا ہے۔ بلکہ پیدائش سے بھی پہلے کے دور سے جب کہ وہ ابھی اپنی ماں کے پیٹ ہی میں تھیں۔ سو عمران کی بیوی نے اس وقت یہ نذر مانی تھی کہ میں نے اپنے ہونے والے اس بچے کو اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے لئے نذر کردیا ہے اور بنی اسرائیل میں اس طرح کی نذر کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ اس کو ان کے معبد کی خدمت کے لئے خاص کردیا جائے گا اور محرراً کا مطلب یہ ہے کہ اس کو بڑے ہونے پر گھر داری اور کمانے کھلانے کی ذمہ داریوں سے فارغ رکھا جائے گا۔ ایسی کوئی ذمہ داری ان پر نہیں ہوگی اور ان کی ساری زندگی صرف بیت المقدس کی خدمت اور اپنے خالق ومالک کی عبادت و بندگی کے لئے وقف ہوگی۔ 78 اصل چیز فکر دیں ہے نہ کہ فکر دنیا : سو اس سے یہ واضح فرما دیا گیا کہ اولاد کے بارے میں اصل فکر انکے دین ہی کی ہونی چاہیئے نہ کہ صرف ان کی دنیا اور مادی ضروریات کی۔ سو عمران کی بیوی نے اپنے رب کی رضا کے لیے نذر مانی کہ " میرے رب میرے پیٹ میں جو کچھ ہے میں نے اس کو تیری رضا کے لیے نذر کردیا آزاد کر کے "۔ یعنی جملہ دنیاوی مشاغل سے۔ تاکہ وہ دنیا کے سب کاموں سے فارغ ہو کر تیری عبادت و بندگی اور تیرے گھر کی خدمت میں لگا رہے کہ زندگی کا اصل مقصد اور اس کا سب سے بڑا مصرف اپنے خالق ومالک کی عبادت و بندگی ہی تو ہے۔ سو اس سے ایک طرف تو حضرت مریم کی والدہ ماجدہ کی سچی دینداری اور اس کے لئے آپ کی فکر مندی کا پتہ چلتا ہے اور دوسری طرف اس سے یہ درس بھی ملتا ہے کہ اولاد کے بارے میں اصل اور بنیادی فکر ان کے دین و ایمان ہی کی ہونی چاہیئے نہ کہ روزی روٹی کی کہ اس کا انتظام ان کا خالق ومالک خود فرما دیگا۔ سو یہی ہے سیدھا طریقہ جو عقل ونقل اور فطرت سلیمہ کے تقاضوں کے عین مطابق ہے کہ انسان اصل فکر اپنے خالق ومالک کی عبادت و بندگی کی کرے۔ رزق روزی کے لئے بقدر ضرورت و کفایت محنت و مشقت تو ضرور کرے لیکن اس کو بنیادی طور پر اللہ تعالیٰ ہی کے حوالے کرے اور اسی کے بھروسہ و اعتماد پر چھوڑ دے کہ روزی کا ذمہ اس نے خود اپنے اوپر لے رکھا ہے جیسا کہ سورة ذریات کے آخر میں اس کی تصریح فرمائی گئی ہے۔ سو بندے کے ذمے ہے اپنے خالق ومالک کی عبادت و بندگی اور خالق کے ذمے ہے اپنی مخلوق اور اپنے بندوں کی روزی رسانی لیکن غافل انسان نے اس کا الٹ کیا ہے اس نے اپنے خالق ومالک کے حق عبادت و بندگی کو پس پشت ڈال کر ۔ والعیاذ باللہ ۔ اپنی روزی کے لئے محنت و مشقت ہی کو اپنا اصل مقصد بنادیا ہے گویا کہ اس کا جینا اور مرنا سب اس کی پیٹ پوجا کے لئے وقف ہو کر رہ گیا ہے جس کے باعث وہ طرح طرح کی ذلتیں اٹھاتا اور جگہ جگہ دھکے کھاتا ہے۔ ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ ۔ بہرکیف یہاں سے یہ درس ملتا ہے کہ اصل فکر اولاد کے دین و ایمان ہی کی کرنی چاہئے کہ وہی اصل مقصود و مطلوب ہے۔
Top