Tafseer-e-Madani - Aal-i-Imraan : 90
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بَعْدَ اِیْمَانِهِمْ ثُمَّ ازْدَادُوْا كُفْرًا لَّنْ تُقْبَلَ تَوْبَتُهُمْ١ۚ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الضَّآلُّوْنَ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ كَفَرُوْا : کافر ہوگئے بَعْدَ : بعد اِيْمَانِهِمْ : اپنے ایمان ثُمَّ : پھر ازْدَادُوْا : بڑھتے گئے كُفْرًا : کفر میں لَّنْ تُقْبَلَ : ہرگز نہ قبول کی جائے گی تَوْبَتُھُمْ : ان کی توبہ وَاُولٰٓئِكَ : اور وہی لوگ ھُمُ : وہ الضَّآلُّوْنَ : گمراہ
بیشک جن لوگوں نے کفر کیا اپنے ایمان کے بعد، پھر وہ اپنے کفر ہی میں بڑھتے چلے گیے، تو ان کی توبہ ہرگز قبول نہیں کی جائے گی، اور ایسے ہی لوگ ہیں پکے (اور پورے) گمراہ
184 پکے اور پورے گمراہوں کی نشاندہی ۔ والعیاذ باللہ : سو اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ اپنے کفر پر اڑنے والے پکے اور پورے گمراہ ہیں کہ کفر ایسے لوگوں کے دلوں میں گھر کرچکا ہے۔ اور اس کی نحوست ان کے رگ و ریشے میں سرایت کرگئی ہے، جس کے باعث ان کو ایسی سچی توبہ کی توفیق نصیب ہی نہیں ہوتی، جو شرف قبولیت پاس کے۔ اور مرتے وقت اگر تو بہ کرینگے بھی تو وہ قبول نہیں ہوگی۔ کیونکہ وہ کشف حقائق کے بعد کی توبہ ہوگی، جو کہ معتبر نہیں۔ اس لئے کہ مطلوب ایمان بالغیب ہے اور موت کے وقت کا وہ ایمان، ایمان بالغیب نہیں ہوگا بلکہ ایمان بالشہود و بالمشاہدہ ہوگا۔ اس لئے وہ توبہ قبول نہیں ہوگی، جیسا کہ سورة نساء میں ارشاد فرمایا گیا { وَلَیْسَت التَّوْبَۃُ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السِّیِّآت، حَتّٰیٓ اِذَا حَضَرَ اَحَدَہُمُ الْمَوْتُ } الآیۃ (النساء 18) ۔ اس لئے عام ضابطہ اور اصول یہی ہے کہ ایسے بدبختوں کی توبہ قبول نہیں ہوگی، کہ ان کو سچی توبہ کی توفیق نصیب ہی نہیں ہوتی ۔ وَالْعِیَاذ باللّہِ ۔ تاہم اگر ان میں سے کسی کو سچی توبہ کی توفیق نصیب ہوگئی تو اس غفورو رحیم، وہّاب و کریم کی رحمت اس کو بھی اپنی آغوش میں لے لیگی، کہ اس کا صاف وصریح ارشاد اپنی کتاب حکیم میں اس طرح موجود و مذکور ہے { وَہُوَ الَّذِیْ یَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَنْ عِبَادِہ وَیَعْفُوْ عَن السِّیِّآت وَیَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ } (الشوریٰ ۔ 25) تو اس طرح یہ ایک استثنائی صورت ہوگی۔ عام ضابطہ و قانون وہی ہے جو اوپر ارشاد ہوا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر ثابت قدم رکھے اور ہر قسم کے شرور و فتن سے ہمیشہ اپنی پناہ میں رکھے ۔ آمین ثم آمین۔
Top