Tafseer-e-Mazhari - Aal-i-Imraan : 102
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بَعْدَ اِیْمَانِهِمْ ثُمَّ ازْدَادُوْا كُفْرًا لَّنْ تُقْبَلَ تَوْبَتُهُمْ١ۚ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الضَّآلُّوْنَ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ كَفَرُوْا : کافر ہوگئے بَعْدَ : بعد اِيْمَانِهِمْ : اپنے ایمان ثُمَّ : پھر ازْدَادُوْا : بڑھتے گئے كُفْرًا : کفر میں لَّنْ تُقْبَلَ : ہرگز نہ قبول کی جائے گی تَوْبَتُھُمْ : ان کی توبہ وَاُولٰٓئِكَ : اور وہی لوگ ھُمُ : وہ الضَّآلُّوْنَ : گمراہ
جو لوگ ایمان لانے کے بعد کافر ہو گئے پھر کفر میں بڑھتے گئے ایسوں کی توبہ ہرگز قبول نہ ہوگی اور یہ لوگ گمراہ ہیں
اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بَعْدَ اِيْمَانِهِمْ ثُمَّ ازْدَادُوْا كُفْرًا : قتادہ اور حسن بصری کا بیان ہے کہ آیت کا نزول یہودیوں کے حق میں ہوا جنہوں نے حضرت موسیٰ اور توریت پر ایمان لانے کے بعد حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) اور انجیل کو ماننے سے انکار کردیا پھر کفر میں اور ترقی کی کہ رسول اللہ اور قرآن کو نہیں مانا۔ ابو العالیہ کے قول پر آیت کا نزول یہود و نصاریٰ دونوں کے حق میں ہوا دونوں نے رسول اللہ کے اوصاف و حالات اپنی کتابوں میں پڑھے اور ان کو مانا لیکن بعثت نبوی کے بعد رسول اللہ پر ایمان نہیں لائے اور اس کفر کی حالت میں گناہوں کی وجہ سے مزید ترقی کی۔ مجاہد کے نزدیک آیت کا نزول تمام کفار کے حق میں ہوا جو اللہ کے خالق ہونے کا اقرار کرنے کے باوجود شرک کرتے ہیں پھر کفر میں بڑھ جاتے ہیں یعنی مرتے دم تک کفر پر قائم رہتے ہیں۔ حسن نے کہا کہ کفر میں بڑھنے کا معنی یہ ہے کہ جو آیت نازل ہوتی گئی وہ اس کا انکار کرتے گئے کلبی نے کہا کہ آیت کا نزول حارث بن سوید کے ساتھیوں کے متعلق ہوا کہ حارث کے دوبارہ مسلمان ہونے کے بعد بھی وہ کفر پر قائم رہے اور مکہ ہی میں مقیم رہے۔ بعض علماء کے نزدیک اَلَّذِیْنَ کَفَرُوْا سے منافق مراد ہیں علانیہ کافروں سے منافقوں کا کفر زیادہ تھا وہ کفر کو پوشیدہ رکھنے اور ظاہر میں باوجود کراہت خاطر کے نماز، روزہ ادا کرنے کی مشقت اٹھاتے تھے کفر سے ان کو انتہائی محبت تھی۔ لَّنْ تُقْبَلَ تَوْبَتُھُمْ : یعنی جن لوگوں نے کفر کیا پھر کفر میں بڑھ گئے ان کی توبہ ہرگز قبول نہیں کی جائے گی۔ اگر الذین کفروا سے یہود و نصاریٰ یا عام کافر مراد ہوں تو توبہ قبول نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جب تک وہ کفر پر قائم رہیں گے گناہوں سے توبہ قبول نہیں کی جائے گی ہاں غر غرہ کے وقت (بھی) کفر سے توبہ مقبول ہے کیونکہ فتح مکہ کے بعد حارث بن سوید کے ساتھیوں میں سے جس نے بھی کفر سے توبہ کی رسول اللہ نے اس کی توبہ قبول فرمائی اور اگر آیت میں منافق مراد ہوں تو یہ مطلب ہوگا کہ جب تک دل سے کفر پر جمے رہیں گے زبان سے توبہ ناقابل قبول ہے۔ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الضَّاۗلُّوْنَ : اور یہی لوگ راہ حق سے بھٹکے ہوئے ہیں۔
Top