Tafseer-e-Madani - Al-Ahzaab : 17
وَ كَمْ قَصَمْنَا مِنْ قَرْیَةٍ كَانَتْ ظَالِمَةً وَّ اَنْشَاْنَا بَعْدَهَا قَوْمًا اٰخَرِیْنَ
وَكَمْ قَصَمْنَا : اور ہم نے کتنی ہلاک کردیں مِنْ : سے قَرْيَةٍ : بستیاں كَانَتْ : وہ تھیں ظَالِمَةً : ظالم وَّاَنْشَاْنَا : اور پیدا کیے ہم نے بَعْدَهَا : ان کے بعد قَوْمًا : گروہ۔ لوگ اٰخَرِيْنَ : دوسرے
(ان سے) پوچھو بھلا وہ کون ہوسکتا ہے جو تمہیں بچائے اللہ (کی گرفت) سے اگر وہ تمہیں کوئی نقصان پہنچانے پر آجائے ؟ یا (وہ کون ہوسکتا ہے ؟ جو اس کی رحمت کو تم سے روک دے) اگر وہ تم پر کوئی مہربانی فرمانا چاہے ؟ اور یہ لوگ کبھی نہیں پاسکیں گے اپنے لئے اللہ کے مقابلے میں کوئی حامی اور نہ کوئی مددگار
31 اللہ کے مقابلے میں کوئی کسی کا حامی اور مددگار نہیں ہوسکتا : سو ارشاد فرمایا گیا " اور ایسے لوگ اللہ کے مقابلے میں اپنے لیے نہ کوئی حمایتی پاس کیں گے اور نہ کوئی مددگار جو انکے کچھ کام آسکے "۔ یہ اسی پچھلی بات کو ایک دوسرے انداز میں ارشاد فرمایا جا رہا ہے کہ جب اللہ پاک کی قضا و قدر کو روکنا کسی کے بس میں نہیں اور اس کے مقابلے میں نہ کوئی کسی کا حامی ہوسکتا ہے نہ مددگار تو پھر اس فرار کا فائدہ کیا ؟ کیونکہ موت کا وقت مقرر اگر نہیں آیا تو چمکتی برستی تلواروں اور تیروں، نیزوں کی بارش میں بھی کسی نے مرنا نہیں۔ اور وقت مقرر کے آجانے پر بند اور مضبوط قلعوں کے اندر بھی اس سے بچنے کی کوئی صورت نہیں ہوسکتی۔ تو پھر خواہ مخواہ اس طرح کا خوف اور ڈر کیوں ؟ شاعر نے کیا خوب کیا ہے ۔ اَیّ یَوْمِیَّ منَ الْمَوْتِ اَفِرُّ ۔ یَوْمَ لا یقدر اَم یوم قدرِ ۔ یَوْم لا یقدر لا اَرْہَبْہ ۔ ومنَ الْمقْدُورِ لا یُنْجِیْ الْحذَر ۔ یعنی " میں اپنی زندگی کے دونوں میں سے کس دن موت سے بھاگوں ؟ جس دن موت مقدر نہیں یا جس دن وہ مقدر ہوچکی ہے۔ جس دن وہ مقدر نہیں اس دن سے ڈرنے کی مجھے کوئی ضرورت نہیں کہ اس دن تو بہرحال اس نے آنا نہیں۔ اور جس دن وہ مقدر ہوچکی ہے اس دن سے بھاگنے کا کوئی فائدہ نہیں کہ اس دن اس سے بچنے کی کوئی صورت نہیں "۔ پس موت کے خوف سے میدان کا رزار اور معرکہ جہاد سے بھاگنا حماقت اور جہالت کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے ؟ ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سبحان اللہ ! کتنی بڑی نعمت اور کس قدر عظیم دولت ہے یہ ایمان و یقین کی دولت کہ اس کی بنا پر انسان کا دل عین تلواروں کے سائے میں بھی مطمئن رہتا ہے۔ ورنہ ہر موقع پر وہ ڈرتا ہی رہتا ہے ۔ والعیاذ باللہ الّذِی لَا اِلٰہَ اِلَّا ہُوْ ۔ سو جب تک قدرت کی رحمت و عنایت سے ڈھیل ملی ہوئی ہے اپنی اصلاح کرلو، قبل اس سے کہ فرصت حیات تمہارے ہاتھ سے نکل جائے اور تمہیں ہمیشہ کیلئے کف افسوس ملنا پڑے۔ اور جب وہ وقت مقدر آجائے گا تو تمہارے لیے نہ کوئی حمایتی ہوگا جو زبانی کلامی تمہاری حمایت کرسکے اور تمہارے لیے کسی طرح کی کوئی شفاعت اور سفارش کرسکے جیسا کہ مشرک لوگ اپنے معبودوں اور شرکاء و اولیاء سے توقع رکھتے تھے اور آج تک رکھتے ہیں کہ یہ ہمارے شفعاء و اولیاء بڑی پہنچی ہوئی " سرکاریں " ہیں۔ جو چاہیں کروا سکتے ہیں۔ یہ اڑ کے بیٹھ جائیں گے اور منوا کر چھوڑیں گے وغیرہ۔ اور دوسرا دھوکہ ایسے لوگوں کو اپنی جماعت و جمعیت اور ان کی حمایت و عصبیت سے لگتا ہے کہ ہم لوگ بڑی اکثریت اور بھاری جمعیت والے ہیں۔ (القصص :78، القمر : 45-44) اور اپنی جمعیت کی قوت و کثرت کی بنا پر یہ دھوکہ اور غرہ ہر صاحب جمعیت کو ہمیشہ لگتا رہا اور آج بھی لگتا ہے۔ اور اس کی بنا پر ایسے لوگ تکبر اور غرور میں مبتلا ہوتے ہیں کہ حق بات سننے اور ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتے ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو اس ارشاد ربانی میں " ولی " اور " نصیر " کی نفی سے ان دونوں سہاروں کی نفی فرما دی گئی کہ ان میں سے کوئی بھی سہارا اس دن کام نہیں آسکے گا ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top