Tafseer-e-Madani - Al-Ahzaab : 19
اَشِحَّةً عَلَیْكُمْ١ۖۚ فَاِذَا جَآءَ الْخَوْفُ رَاَیْتَهُمْ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْكَ تَدُوْرُ اَعْیُنُهُمْ كَالَّذِیْ یُغْشٰى عَلَیْهِ مِنَ الْمَوْتِ١ۚ فَاِذَا ذَهَبَ الْخَوْفُ سَلَقُوْكُمْ بِاَلْسِنَةٍ حِدَادٍ اَشِحَّةً عَلَى الْخَیْرِ١ؕ اُولٰٓئِكَ لَمْ یُؤْمِنُوْا فَاَحْبَطَ اللّٰهُ اَعْمَالَهُمْ١ؕ وَ كَانَ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرًا
اَشِحَّةً : بخل کرتے ہوئے عَلَيْكُمْ ښ : تمہارے متعلق فَاِذَا جَآءَ : پھر جب آئے الْخَوْفُ : خوف رَاَيْتَهُمْ : تم دیکھو گے انہیں يَنْظُرُوْنَ : وہ دیکھنے لگتے ہیں اِلَيْكَ : تمہاری طرف تَدُوْرُ : گھوم رہی ہیں اَعْيُنُهُمْ : ان کی آنکھیں كَالَّذِيْ : اس شخص کی طرح يُغْشٰى : غشی آتی ہے عَلَيْهِ : اس پر مِنَ الْمَوْتِ ۚ : موت سے فَاِذَا : پھر جب ذَهَبَ : چلا جائے الْخَوْفُ : خوف سَلَقُوْكُمْ : تمہیں طعنے دینے لگیں بِاَلْسِنَةٍ : زبانوں سے حِدَادٍ : تیز اَشِحَّةً : بخیلی (لالچ) کرتے ہوئے عَلَي الْخَيْرِ ۭ : مال پر اُولٰٓئِكَ : یہ لوگ لَمْ يُؤْمِنُوْا : نہیں ایمان لائے فَاَحْبَطَ اللّٰهُ : تو اکارت کردیے اللہ نے اَعْمَالَهُمْ ۭ : ان کے اعمال وَكَانَ : اور ہے ذٰلِكَ : یہ عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر يَسِيْرًا : آسان
تمہارے بارے میں سخت بخل سے کام لیتے ہوئے پھر جب خطرے کا وقت آجائے تو تم ان کو دیکھو گے کہ یہ (مارے خوف و دہشت کے) تماری طرف اس طرح دیکھتے ہیں کہ چکرا رہی ہوتی ہیں ان کی آنکھیں (ان کے گڑھوں میں) اس شخص کی طرح جس پر غشی طاری ہو رہی ہو موت کیوجہ سے پھر جب خطرہ گزر جاتا ہے تو یہ لوگ تمہارا استقبال کرتے ہیں (قینچی کی طرح چلتی ہوئی) تیز زبانوں کیساتھ سخت حریص بن کر دنیاوی فوائد (و منافع) پر یہ لوگ سرے سے ایمان لائے ہی نہیں سو اس کے نتیجے میں اللہ نے اکارت کردیا ان کے اعمال کو اور یہ اللہ کے لئے کچھ مشکل نہیں
34 منافقوں کے بخل اور لالچ کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " یہ لوگ تمہارے بارے میں سخت بخل سے کام لیتے ہوئے " " اَشِحَّہ " جمع ہے " شحیح " کی جس کے معنیٰ " کنجوس " اور " بخیل " کے بھی آتے ہیں اور حریص و لالچی کے بھی۔ اس آیت کریمہ میں یہ لفظ دو جگہ استعمال ہوا ہے۔ شروع میں { اَشِحَّۃً عَلَیْکُمْ } اور آخر میں { اَشِحَّۃً عَلَی الخْیر } فرمایا گیا ہے۔ سو شروع میں اس لفظ کا پہلا معنیٰ مراد ہے اور آخر میں دوسرا۔ یعنی تمہارے بارے میں یہ لوگ ایسے بخیل اور کنجوس ہیں کہ جان لڑانا اور خطرات کو انگیز کرنا تو بڑی بات ہے یہ کسی بھی طرح کی بہتری اور بھلائی کے سلسلے میں تمہارے لئے کسی خیر کے روادار نہیں۔ اور یہ حریص اور لالچی اس قدر ہیں کہ سب تعلقات قطع کرنے اور بالکل الگ ہوجانے کے باوجود مال غنیمت وغیرہ کے ملنے کی صورت میں یہ سب سے آگے بڑھ بڑھ کر اپنے حق دار ہونے کے دعوے پیش کرتے اور پرزور مطالبے کرنے لگتے ہیں۔ اور یہی حال ہوتا ہے ایمان و یقین کی دولت سے محروم ابنائے دنیا کا کہ یہ لوگ متاع دنیا ہی کیلئے جیتے اور اسی کیلئے مرتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ جبکہ مومن صادق کے نزدیک اصل چیز ایمان اور آخرت ہی ہے۔ جس کے مقابلے میں دنیا ساری کی دولت کی بھی کوئی حقیقت اور حیثیت نہیں ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید - 35 ان موقع پرستوں کی چرب لسانی کا بیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " خطرے کا وقت گزر جانے پر یہ لوگ تیز زبانوں سے تمہارا استقبال کرتے ہیں "۔ کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہیں تھے ؟ اور کیا ہم نے لڑائی میں حصہ نہیں لیا ؟ ہم اگر شریک معرکہ نہ ہوتے تو تمہیں معلوم ہوجاتا کہ جیت کس طرح ہوتی ہے ؟ وغیرہ وغیرہ۔ " سلق " کے معنیٰ چرب لسانی اور تیز زبانی کے آتے ہیں۔ اسی لئے تیز طرار اور چرب لسان خطیب کو عربی زبان میں خطیب سلاق کہا جاتا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ { سَلَقُوْکُمْ } کی تشریح و تفسیر میں کہتے ہیں " اِسْتَقْبَلُوکُمْ " (ابن کثیر، صفوۃ التفاسیر، جامع البیان وغیرہ) ۔ سو یہ لوگ جنگ میں سب سے بزدل اور تقسیم غنیمت کے موقع پر سب سے بڑے حریص لوگ تھے۔ (ابن کثیر وغیرہ) اور ابنائے دنیا کا یہی حال ہمیشہ رہا۔ کل بھی یہی تھا اور آج بھی یہی ہے کہ دنیائے فانی اور اسکا حطام زائل ہی ان کے نزدیک سب کچھ ہوتا ہے ۔ الا ماشاء اللہ ۔ سو ایسے لوگوں کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ یہ لوگ اول تو دفاع میں حصہ لیتے ہی نہیں اور اگر کبھی کچھ حص لیتے بھی ہیں تو محض دنیاوی مال کے لالچ میں۔ تمہارے لیے یہ کسی خیر کے روادار نہیں اور تمہارے لیے جان یا مال کی کوئی قربانی دینے کے معاملے میں یہ نہایت بخیل ہیں۔ ان کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ راہ حق میں خون کا قطرہ بہائے بغیر یہ مجاہد اور غازی بھی سمجھے جائیں اور مال غنیمت میں ان کو پورا پورا حصہ ملے کہ اصل چیز ان کے نزدیک دنیا ہی ہے۔ یہ اسی کے لیے جیتے اور اسی کے لیے مرتے ہیں جبکہ مومن صادق کے نزدیک اصل چیز آخرت ہے۔ 36 یہ سخت حریص ہوتے ہیں دنیاوی فوائد کے : یعنی " الخیر " سے یہاں پر وہ فوائد اور ثمرات مراد ہیں جو جنگ کے خاتمے پر اور فتح کی صورت میں ملتے ہیں۔ جیسے مال غنیمت اور دوسرے تمغے اور اعزازات وغیرہ۔ یعنی یہ لوگ انتہائی بزدل ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی حریص اور طماع بھی ہیں۔ لڑائی کے وقت انتہائی بزدل اور فوائد کی تقسیم کے وقت انتہائی حریص اور لالچی ۔ " اَجْبَنُ قَوْمٍ عِنْدَ الْبَأسِ وَ اَشحُّ قوم عند الغنیمۃ " ۔ (ابن کثیر، صفوۃ التفاسیر، جامع البیان وغیرہ وغیرہ) ۔ سو ان لوگوں کا تمہارے بارے میں بخالت اور تنگ دلی کا یہ عالم ہے کہ تمہاری خاطر یہ خون کا ایک قطرہ بہانے کو تیار نہیں اور تمہارے لیے ایک پائی پیسہ بھی خرچ کرنے کیلئے راضی نہیں لیکن اگر مال غنیمت ہاتھ لگے تو اس میں شرکت اور اس کا زیادہ سے زیادہ حصہ مارنے کی غرض سے زبان کے یہ غازی اپنی چرب لسانی کے نت نئے جوہر دکھلاتے ہیں۔ اور یوں منظر کشی کرتے ہیں کہ گویا کہ یہ سب کچھ انہی کی مساعی کا رہین منت ہے۔ اور اس ضمن میں یہ سب کو ہدف مطاعن بنا ڈالتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم - 37 دولت ایمان سے محرومی، ہر خیر سے محرومی ۔ والعیاذ باللہ : سو ان لوگوں کے اس منافقانہ کردار کے اصل سبب کے ذکر وبیان کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ یہ لوگ ایمان لائے ہی نہیں۔ یعنی یہ لوگ بلند بانگ دعوے بیشک کریں مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سچے دل سے ایمان لائے ہی نہیں۔ اور جب ایمان کی دولت سے محروم ہوئے تو ہر خیر سے محروم ہوگئے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور اس بےایمانی اور نور یقین سے محرومی کے سبب ان کے کسی عمل کا کوئی اعتبار ہی نہیں۔ جہاد وغیرہ جن اعمال کا یہ دم بھرتے ہیں وہ سب ختم اور کالعدم ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو حقیقی ایمان کی دولت تو ان کو نصیب نہیں ہوئی اور ظاہری اور نمائشی ایمان جسکے یہ لوگ دعویدار ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے یہاں کام آنے والا نہیں۔ اسکا اس کے یہاں کوئی وزن اور اعتبار نہیں۔ سو دولت ایمان سے محرومی ہر خیر سے محرومی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ ہمیشہ اپنی حفظ وامان میں رکھے ۔ آمین۔ 38 منافقوں کے سب اعمال اکارت : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " اللہ نے اکارت کردیا انکے سب اعمال کو "۔ انکے یہ اعمال ضائع اور اکارت تو ایمان نہ ہونے کی وجہ سے پہلے ہی ہوچکے تھے مگر دوسروں کے سامنے اس امر کا ظہور اب ہوا ہے۔ اور یہ ضیاع بھی ایمان کے فقدان کے باعث خود ہوا کہ ایمان ہی اصل بنیاد ہے صلاح و اصلاح اور دارین کی فوز و فلاح کی۔ اور اس سے محرومی ہر خیر سے محرومی ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ مگر چونکہ یہ اس وحدہ لا شریک کے قانون عدل و انصاف کی بنا پر ہوا اور اس کے ملک یعنی اس کی بادشاہی میں اس کی مشیت کے بغیر کچھ بھی وقوع پذیر نہیں ہوسکتا۔ اس لئے اس کی نسبت اللہ پاک کی طرف فرمائی جا رہی ہے کہ اس نے ان کے اعمال کو اکارت کردیا کہ یہ بات اس کی اس سنت و دستور کے مطابق ہے جو اس کی اس کائنات میں قائم اور جاری وساری ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ سو کسی کو اس غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیئے کہ اللہ تو بڑا ہی مہربان اور کریم ہے۔ وہ کسی کے عمل کو ضائع کس طرح فرمائے گا۔ اس لیے کہ وہ مہربان اور کریم تو بلاشبہ ہے اور بڑا ہی مہربان اور کریم ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ بڑا ہی غیور اور انتہائی غنی اور بےنیاز بھی ہے۔ اس لیے وہ انہی اعمال کو شرف قبولیت سے نوازتا ہے جو خالص اس کی رضا و خوشنودی کیلئے ہوں۔ اور جو اس کی شان غیرت و بےنیازی کیخلاف ہوں گے ۔ والعیاذ باللہ ۔ تو وہ انکو اکارت کردیتا ہے۔
Top