Tafseer-e-Madani - Faatir : 45
وَ لَوْ یُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوْا مَا تَرَكَ عَلٰى ظَهْرِهَا مِنْ دَآبَّةٍ وَّ لٰكِنْ یُّؤَخِّرُهُمْ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى١ۚ فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِعِبَادِهٖ بَصِیْرًا۠   ۧ
وَلَوْ : اور اگر يُؤَاخِذُ اللّٰهُ : اللہ پکڑ کرے النَّاسَ : لوگ بِمَا كَسَبُوْا : ان کے اعمال کے سبب مَا تَرَكَ : وہ نہ چھوڑے عَلٰي : پر ظَهْرِهَا : اس کی پشت مِنْ دَآبَّةٍ : کوئی چلنے پھرنے والا وَّلٰكِنْ : اور لیکن يُّؤَخِّرُهُمْ : وہ انہیں ڈھیل دیتا ہے اِلٰٓى : تک اَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ : ایک مدت معین فَاِذَا : پھر جب جَآءَ : آجائے گی اَجَلُهُمْ : ان کی اجل فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے بِعِبَادِهٖ : اپنے بندوں کو بَصِيْرًا : دیکھنے والا
اور اگر کہیں اللہ پکڑنے لگتا لوگوں کو ان کے کئے کرائے پر تو وہ کسی متنفس کو بھی روئے زمین پر (زندہ) نہ چھوڑتا لیکن وہ ان کو ڈھیل دئیے جا رہا ہے ایک وقت مقرر تک پھر جب آپہنچے گا ان کا وہ وقت مقرر تو ان کا حساب پوری طرح چکا دیا جائے گا بیشک اللہ پوری طرح نگاہ رکھے ہوئے ہے اپنے بندوں پر1
100 اللہ تعالیٰ کی سنت امہال کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اگر اللہ کہیں لوگوں کو انکے کیے کرائے پر۔ فوری طور پر۔ پکڑنے لگتا تو زمین پر کس جاندار کو باقی نہ چھوڑتا۔ کہ انسان اپنے گناہوں کی پاداش میں نیست و نابود کر دئیے جاتے اور جانور وغیرہ جو اس کی خدمت اور فائدے کے لئے تھے ان کے باقی رکھنے کا کوئی مقصد نہ رہ جاتا کہ وہ تو انسان ہی کی خدمت اور بھلے کے لئے پیدا کئے جاتے ہیں۔ تو جب مخدوم ہی نہ رہے تو پھر خادموں کے باقی رکھنے کا کیا فائدہ ؟ اس لئے ان کو بھی مٹا دیا جاتا۔ مگر اللہ پاک اپنی شان کریمی سے کام لیتے ہوئے انسان کو ڈھیل پر ڈھیل اور مہلت پر مہلت ہی دئیے جا رہا ہے کہ شاید یہ سنبھل جائے سدھر جائے اور اپنے کرتوتوں سے رک جائے اور باز آجائے۔ اور اس طرح یہ لوگ اپنے اس ہولناک انجام سے بچ جائیں جس کی طرف یہ بڑھے چلے جا رہے ہیں۔ اور اگر یہ نہیں تو پھر یہ لوگ اپنا پیمانہ اچھی طرح لبریز کرلیں تاکہ ان کا پھوڑا پوری طرح پک کر آخری آپریشن کے قابل ہوجائے۔ اور ایسے لوگ اپنے کئے کرائے کا بھرپور بدلہ پاسکیں۔ اور اس طرح کہ ان کے لئے کوئی عذر اور حجت باقی نہ رہ جائے ۔ { یَوْمَ لَا یَنْفَعُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مَعْذِرَتُہُمْ وَلَہُمُ اللَّعْنَۃُ وَلَہُمْ سُوْئُ الدَّارِ } ۔ (المومن : 52) اور یہی سب سے بڑا خسارہ اور دائمی ناکامی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ ہمیشہ اپنے حفظ وامان میں رکھے ۔ آمین۔ 101 اللہ کے بندے اللہ کی نگاہ میں : سو ارشاد فرمایا گیا اور ادوات تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ " بیشک اللہ پوری طرح نگاہ رکھے ہوئے ہے اپنے بندوں پر "۔ لہذا وہ پوری طرح جانتا ہے کہ کون کیا کر رہا ہے اور کون کس سزا و جزا کا مستحق ہے۔ نہ کوئی اس کی نگاہ سے اوجھل ہوسکتا ہے اور نہ کسی کی کوئی نیت اور کوئی عمل اس سے مخفی و پوشیدہ رہ سکتا ہے۔ اسی کے مطابق وہ ہر ایک کو اس کے صلہ و بدلہ سے نوازے گا اور پورے عدل و انصاف کا معاملہ فرمائے گا ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ { اَللّٰہُمَّ کُنْ لَنَا وَ لا تَکُنْ عَلَیْنَا وَاہْدِنَا وَاہْد بِنَا وَاجْعَلْنَا عَلٰی صِرَاطِکَ الْمُسْتَقِیْمِ وَارْضَ عَنَّا بِمَحْضِ مَنِّکَ وَکَرَمِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ وَ یَا اَکْرَمَ الاَکْرَمِیْنَ ۔ بہرکیف اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ اگر مجرموں کو انکے کیے کرائے کی پاداش میں فوراً نہیں پکڑتا تو یہ اس کی اس کریمانہ سنت کی بنا پر ہے جو اس کے حلم اور کرم بےپایاں پر مبنی ہے۔ ورنہ وہ اگر پکڑنے پر آجائے تو کوئی اسکا ہاتھ نہیں پکڑ سکتا اور کسی کی یہ مجال نہیں کہ وہ اس کی راہ میں رکاوٹ بن جائے اور اس کے ارادے میں مزاحم ہوسکے۔ وہ اگر چاہے تو چشم زدن میں روئے زمین سے ہر متنفس کو مٹا دے۔ مگر وہ چونکہ حلیم و کریم اور غفور و رحیم ہے۔ اس لیے لوگوں کو ایک مدت معین تک مہلت دیئے جا رہا ہے تاکہ جو چاہے توبہ اور رجوع الی اللہ کے ذریعے اپنی اصلاح کرلے۔ اور جو اپنی ضد اور ہٹ دھرمی ہی پر اڑا رہے اس پر حجت تمام ہوجائے۔ پس اس کی سنت امہال سے کسی کو بھی کبھی دھوکے میں نہیں پڑنا چاہیئے ۔ والعیاذ باللہ جل وعلا -
Top