Tafseer-e-Madani - Az-Zumar : 10
قُلْ یٰعِبَادِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوْا رَبَّكُمْ١ؕ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا حَسَنَةٌ١ؕ وَ اَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةٌ١ؕ اِنَّمَا یُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ
قُلْ : فرمادیں يٰعِبَادِ : اے میرے بندو الَّذِيْنَ : جو اٰمَنُوا : ایمان لائے اتَّقُوْا : تم ڈرو رَبَّكُمْ ۭ : اپنا رب لِلَّذِيْنَ : ان کے لیے جنہوں نے اَحْسَنُوْا : اچھے کام کیے فِيْ : میں هٰذِهِ الدُّنْيَا : اس دنیا حَسَنَةٌ ۭ : بھلائی وَاَرْضُ اللّٰهِ : اور اللہ کی زمین وَاسِعَةٌ ۭ : وسیع اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں يُوَفَّى : پورا بدلہ دیا جائے گا الصّٰبِرُوْنَ : صبر کرنے والے اَجْرَهُمْ : ان کا اجر بِغَيْرِ حِسَابٍ : بےحساب
کہہ دو ) میری طرف سے کہ (اے میرے وہ بندوں جو ایمان لائے ہو ڈرتے رہو تم اپنے رب سے جنہوں نے نیکی) اور اچھائی) کی اس دنیا میں ان کے لئے عظیم الشان بھلائی ہے اور اللہ کی زمین بڑی فراخ ہے بیشک صبر کرنے والوں کو پورا دیا جائے گا ان کا اجر بغیر کسی حساب کے
25 ایمان وتقویٰ ہی باعث سرفرازی : سو اس ارشاد سے واضح فرمایا دیا گیا کہ ایمان اور تقویٰ و پرہیزگاری ہی دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے۔ " اتِّقُوا " امر کا صیغہ ہے جو کہ ماخوذ ہے " اتقاء " سے جس کے اصل معنیٰ بچنے کے آتے ہیں۔ سو مطلب یہ ہوا کہ تم ہر اس چیز سے بچو اور اس سے احتراز و اجتناب کی پابندی کرو جو تمہارے رب کی ناراضگی اور اس کی گرفت و پکڑ کا باعث ہو کہ یہ اس کی شان ربوبیت کا تقاضا ہے کہ تم ہمیشہ اس کی ناراضگی سے بچنے کی فکر کرو۔ کہ اس میں خود تمہارا ہی بھلا اور فائدہ ہے۔ پس اس کے تمام اوامرو فرامین کو صدق دل سے بجا لاؤ اور اس کی تمام منہیات سے ہمیشہ بچ کر رہو کہ اسی میں خود تمہارے لئے دارین کی فوز و فلاح ہے۔ سو ایمان اور تقویٰ و پرہیزگاری دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے ۔ اللہ نصیب فرمائے اور ہر لحظہ و لمحہ اپنی رضا کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے ۔ آمین۔ بہرکیف اس ارشاد میں پیغمبر کو خطاب کر کے ہدایت فرمائی گئی ہے کہ آپ میرے ان بندوں کو یہ بات پہنچادو جو ایمان لائے ہیں کہ تم اپنے رب سے ڈرتے رہو۔ یعنی احمق لوگوں نے تو شرک اور مشرکانہ عقیدئہ شفاعت کی مختلف راہیں نکال کر خداوند قدوس کے عدل و انصاف اور اس کی سزا و جزا کی اصل حقیقت کو بالکل بےمعنیٰ کردیا ہے لیکن تم اپنے رب کے عدل سے برابر ڈرتے رہو اور اس کے تقاضوں کی تعمیل و تکمیل کے لیے نیکی کرتے اور برائی سے بچتے رہو ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید وہو الہادی الی سواء السبیل - 26 اچھائی کرنے والوں کے لیے عظیم الشان اچھائی کی بشارت و خوشخبری : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " جن لوگوں نے اچھائی کی اس دنیا میں ان کیلئے ایک عظیم الشان اچھائی ہے "۔ یعنی جن خوش نصیبوں نے ایمان و یقین کی دولت سے سرفراز و سرشار ہو کر اپنے باطن کا تزکیہ کرلیا اور نیک اعمال اور پاکیزہ اخلاق کی کمائی کے ذریعے اپنے آپ کو ایک پاکیزہ انسان بنا لیا ان کو دنیا کے اس دار فانی میں بھی اچھائی اور بھلائی نصیب ہوگی کہ وہ حیات طیبہ کی نعمت سے بہرہ ور و سرفراز ہوں گے اور آخرت میں ان کو نعیم جنت سے سرفرازی کی سدا بہار اور حقیقی کامیابی نصیب ہوگی۔ اور وہ اپنے رب کی رضا کی دولت سے مالا مال ہوں گے جو کہ سب سے بڑی دولت ہے ۔ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ اَکْبَرُ ۔ اللہ اپنے خاص فضل و کرم سے ہمیں بھی نصیب فرما دے ۔ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْاَعَزَُّالاَکْرَمُ ۔ سو اچھائی کا بدلہ بہرحال اچھا ہی ہے اور اچھائی کی اصل اساس اور بنیاد یہ ہے کہ انسان اپنے اس خالق ومالک کو یاد رکھے اور اسکا بندہ بن کر رہے جس نے اس کو وجود بخشا اور جسکی رحمتوں اور عنایتوں میں وہ سرتاپا ڈوبا ہوا ہے کہ اس پر سب سے پہلا اور سب سے بڑا حق اسی وحدہ لاشریک کا عائد ہوتا ہے۔ سو سب سے پہلے وہ اسی خالق ومالک کے حقِّ بندگی کی ادائیگی کی فکر و کوشش کرے۔ اور اس کے بعد اس کے بندوں کے ساتھ بھلائی کرے۔ سو اس احسان اور بھلائی کے نتیجے میں ایسے انسان کو ایسی عظیم الشان بھلائی نصیب ہوگی جو اس پر دنیا کی اس عارضی اور فانی زندگی میں بھی سایہ فگن رہے گی اور اس کے بدلے میں وہ آخرت کے اس ابدی جہاں میں بھی وہاں کی نعیم مقیم سے سرفراز و بہرہ ور ہوگا ۔ وباللہ التوفیق ۔ بہرکیف اس ارشاد سے اس اہم بنیادی حقیقت سے آگاہ فرما دیا گیا کہ جن لوگوں نے اپنی زندگی کو نیکی اور بھلائی کے ساتھ گزارا ہوگا ان کے لیے بڑا اچھا اور عمدہ بدلہ ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اور اس کے برعکس جنہوں نے جھوٹی شفاعتوں کے بل پر جنت الحمقاء میں زندگی گزاری ہوگی وہ اپنی اس حماقت کا نتیجہ وانجام خود دیکھ لیں گے ۔ والعیاذ باللہ جل وعلا - 27 دین و ایمان کی حفاظت سب پر مقدم : اس لیے جہاں دین و ایمان محفوظ نہ ہو اس کو چھوڑ کر انسان کہیں اور چلا جائے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ " اللہ کی زمین بڑی وسیع ہے "۔ پس اگر کسی ایک شہر یا ملک میں تمہیں اپنا دین و ایمان خطرے میں نظر آئے اور تم اپنے رب کی عبادت و بندگی کا فریضہ بھی حسب منشا بجا نہ لا سکو تو اس شہر اور ملک کو چھوڑ کر تم کسی اور ایسی جگہ جا بسو جہاں تمہیں اپنے دین و ایمان کی سلامتی بھی میسر ہو اور اپنے رب کی عبادت و بندگی بجا لانے کی آزادی بھی کہ اصل چیز تو دین و ایمان کی سلامتی اور اپنے رب کی عبادت و بندگی کی سعادت ہی ہے۔ اس لئے اس کی حفاظت سب سے اہم اور ہر شی پر مقدم ہے۔ اس کی خاطر دنیا کی ہر چیز کو قربان کیا جاسکتا ہے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید - 28 صبر والوں کے لیے اجر بےحساب کی بشارت : سو اس سے صبر والوں کے لیے عظیم الشان اور بےحد وحساب اجرو ثواب کی بشارت دی گئی ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ " صبر کرنے والوں کیلئے بےحساب اجر وثواب ہے "۔ پس ایمان والوں کو چاہیئے کہ وہ راہ حق میں پیش آنے والے مصائب و مشکلات سے نہ کبھی دل برداشتہ ہوں اور نہ کبھی ہمت ہاریں کہ ان کو ایسا بےحساب اجر وثواب ملنے والا ہے۔ پس وہ باطل اور اہل باطل کا مقابلہ کریں اور یقین رکھیں کہ ان کے لئے ناکامی کی کوئی صورت ہے ہی نہیں۔ سو راہ حق پر چلنا اگرچہ بڑا کٹھن اور صبر آزما ہے لیکن اس پر صبر و ثبات سے کام لینے پر اجر بھی بےحساب ملتا ہے۔ یعنی ان خوش نصیبوں کو حضرت واہب مطلق ۔ جل وعلا ۔ کی طرف سے جو اجر وثواب ملے گا وہ ان کی توقعات اور ان کے اندازوں اور ان کے گمان و قیاس سے کہیں بڑھ کر ملے گا۔ اور اتنا اور اس قدر کہ آج یہ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید -
Top