Tafseer-e-Madani - Al-Hujuraat : 13
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا١ؕ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو ! اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ : بیشک ہم نے پیدا کیا تمہیں مِّنْ ذَكَرٍ : ایک مرد سے وَّاُنْثٰى : اور ایک عورت وَجَعَلْنٰكُمْ : اور بنایا تمہیں شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ : ذاتیں اور قبیلے لِتَعَارَفُوْا ۭ : تاکہ تم ایک دوسرے کی شناخت کرو اِنَّ اَكْرَمَكُمْ : بیشک تم میں سب سے زیادہ عزت والا عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک اَتْقٰىكُمْ ۭ : تم میں سب سے بڑا پرہیزگار اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا خَبِيْرٌ : باخبر
اے لوگوں یقینا ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہیں مختلف قوموں اور خاندانوں میں (محض اس لئے) تقسیم کردیا کہ تاکہ تم آپس میں پہچان کرسکو بیشک اللہ کے یہاں تم میں سے سب سے بڑا عزت دار وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ متقی (و پرہیزگار) ہو بیشک اللہ پوری طرح جانتا ہے (تمہارے عمل و کردار کو اور وہ) پوری طرح باخبر ہے (تمہاری احوال سے)
[ 41] نسلی اور خاندانی تفاخر و غرور پر فیصلہ کن ضرب کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا اور سب لوگوں کو خطاب کرکے ارشاد فرمایا گیا کہ " اے لوگو ! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد اور عورت سے پیدا کیا "۔ یعنی آدم و حوا سے۔ تو پھر تمہارے لئے دوسروں کی طعنہ زنی اور ان کو گھٹیا سمجھنا تمہارے لئے کس طرح روا ہوسکتا ہے ؟ جب کہ اصل اور اساس تم سب کی ایک ہی ہے، تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم کی پیدائش مٹی سے ہوئی ہے { کلکم من ادم و ادم من ترابٍ } پس محض نسلی بنیادوں پر اپنی بڑائی جتانے کا کوئی جواز نہیں، کہ یہ چیز بندے کے اپنے اختیار میں نہیں۔ اور جو چیز کسی کے اختیار میں نہ ہو وہ معیار فضیلت نہیں بن سکتی۔ اسی لئے یہاں پر فضیلت و بندگی کا معیار تقویٰ و پرہیزگاری کو قرار دیا گیا ہے جو کہ انسان کے اپنے اختیار میں ہے، اس میں جو جتنا ترقی کرے گا اتنا ہی آگے بڑھتا جائے گا۔ وباللّٰہ التوفیق۔ بہرکیف اس ارشاد ربانی سے اس نسلی، خاندانی اور قبائلی غرور و تفاخر کا یکسر خاتمہ فرما دیا گیا جو ان برائیوں میں سے اکثر کا سبب بنتا ہے، جن کا ذکر اوپر فرمایا گیا اور جس نے دنیا میں ہمیشہ تباہی مچائی۔ اس کی بناء پر جگہ جگہ اور طرح طرح سے خون ریزی ہوئی، اور آج تک ہو رہی ہے اور جس کے باعث تاریخ کے مختلف ادوار میں کشتوں کے پشتے لگے، اور آج تک لگ رہے ہیں، قرآن حکیم نے اس طرح اس کی جڑ کاٹ دی، اور نسلی اور خاندانی تفاخر و غرور پر فیصلہ کن ضرب لگائی۔ فالحمدللہ۔ پس یہ حقیقت صاف اور واضح ہوگئی کہ محض نسالی اور خاندانی تفاخر کوئی چیز نہیں۔ [ 42] خاندانوں اور قبائل کی تقسیم سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے : چناچہ ارشاد فرمایا گیا کہ " ہم ہی نے تم لوگوں کو مختلف قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا "۔ " شعوب " جمع " سعب " کی۔ جس کے معنی قوم کے آتے ہیں۔ اور آج بھی عرب ملکوں میں یہ لفظ اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً عرب آج بھی کہتے ہیں " شعب الامارات "، " الشعب السعودی "، " شعب فلسطین " اور " شعب لیبیا " وغیرہ وغیرہ۔ اور قبائل جمع ہے قبیلہ کی۔ جس کو اردو میں خاندان کہا جاتا ہے۔ عربی زبان کی وسعت اور ہمہ گیری کا یہ بھی ایک مظہر اور ثبوت ہے کہ اس میں طبقات نسل کے اعتبار سے لوگوں کے مختلف طبقوں کیلئے سات نام آتے ہیں جن میں سب سے اوپر شعب ہے اور سب سے نیچے عشیرہ۔ اور باقی ان دونوں کے درمیان۔ اور جب تم لوگوں کو مختلف قوموں اور قبیلوں میں ہم ہی نے تقسیم کیا ہے، تم میں سے کسی کا اس میں کوئی دخل اور اختیار نہیں تو پھر یہ چیز ہو کسی کے بس اور اختیار ہی میں نہیں باہمی تفوق اور تفاخر کا باعث آخر کیونکر بن سکتی ہے ؟ قابل تفاخر تو وہ چیز ہوسکتی ہے جو انسان کے اپنے بس اور اختیار میں ہو، سو کسی خاص خاندان یا قبیلے میں پیدا ہوجانے سے کسی کو کوئی ایسا امتیاز حاصل نہیں ہوجتا کہ وہ اپنے آپ کو دوسروں کے مقابلے میں اعلیٰ و اشرف سمجھنے لگے اور دوسروں کو اپنے مقابلے میں گھٹیا اور حقیر قرار دینے لگے کہ یہ چیز عقل و نقل دونوں کے تقاضوں کے خلاف اور منافی ہے۔ بہرکیف جب خاندانوں اور قبائل کی تقسیم اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے انسان کا اس میں کوئی دخل اور اختیار نہیں تو پھر یہ چیز انسان کی فضیلت اور اس کے تقوق کا باعث اور معیار آخر کس طرح بن سکتی ہے ؟ پس اصل چیز تقویٰ و پرہیزگاری ہے اور بس۔ اللہ نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین۔ [ 43] قوموں اور قبیلوں کی تقسیم محض باہمی تعارف کے لئے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ہم نے تم لوگوں کو مختلف قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا کہ تاکہ تم لوگ آپس میں پہچان کرسکو۔ نہ اس لئے کہ تم محض اس بناء پر ایک دوسرے پر فخر جتانے لگو، اور اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں دوسروں کو اپنے سے گھٹیا اور حقیر سمجھنے لگو، اور اس بناء پر ایک دوسرے کے کشت و خون کے درپے ہوجاؤ، کہ پیدائش کا معاملہ انسان کے اپنے بس اور اختیار میں ہے ہی نہیں، اور فخر اسی چیز پر کیا جاسکتا ہے جو انسان کے اپنے بس اور اختیار میں ہو، سبحان اللہ ! کتنا اہم اور کس قدر معقول اور بنیادی درس دیا اس کتاب حکیم نے دنیا کو، مگر افسوس کہ دنیا اس سے غافل و بیخبر ہے، یہاں تک کہ خود مسلمان بھی اس سے غافل و بےبہرہ ہے۔ اور آج کے جاہل اور غافل انسان نے اس عظیم الشان درس کو بھلا کر عقل و نقل اور فطرت سلیمہ کے عین مطابق ارشاد فرمائی جانے والی ان تعلیمات مقدسہ کو پس پشت ڈال کر نسل و خاندان ہی کو فضیلت و بزرگی کے لئے اصل اور معیار قرار دے رکھا ہے، اور اسی نسلی اختلاف و تفاوت کی بنا کر جگہ جگہ کشت و خون کے بازار گرم کر رکھے ہیں، جس کے نتیجے میں رونگٹے کھڑے کردینے والے حوادث و واقعات، یہاں اور وہاں، جگہ جگہ، اور طرح طرح، سے رونما ہوتے رہتے ہیں، والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ بہرکیف اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ قوموں اور قبیلوں کی تقسیم محض تعارف کیلئے ہے، اور معیار فضیلت و برتری صرف تقویٰ و پرہیزگاری ہے، اور بس۔ جس کی یہاں پر تفریح فرما دی گئی، والحمدللّٰہ جل وعلا۔ [ 44] معیار فضیلت و برتری صرف تقویٰ و پرہیزگاری : پس اگر قابل فخر بننا ہے تو تقوے کا یہ وصف اپنے اندر زیادہ سے زیادہ پیدا کرو، سبحان اللّٰہ، مساوات اور حقوق انسانی کے دعویداروں کی آنکھیں تو آج کھل رہی ہیں، اور وہ بھی محض برائے نام مگر اسلام نے اپنی مقدس تعلیمات میں اس کا درس اور اس قدر واضح اور ٹھوس انداز میں دیا اور آج سے چودہ سو برس پہلے دیا تھا، اور اس وقت جب کہ پوری دنیا سوئی ہوئی تھی اور پوری نوع انسانی کو خطاب کرکے اور اس قدر عمدگی، جامعیت اور معقولیت کے ساتھ درس دیا کہ دور حاضر کی دنیا اپنی تمام تر روشن خیالوں، اور بلند بانگ دعوؤں کے باوجود اس کے عشر عشیر کو بھی نہ آج تک پہنچ سکی ہے، اور نہ قیامت تک پہنچ سکے گی، کہ یہ حضرات خالق جل مجدہ کے علم و حکمت پر مبنی تعلیم ہے، اگر اللہ پاک کی طرف سے مفصل تفسیر لکھنے کے ارادے کو عملی جامہ پہنانے کی توفیق وسعادت نصیب ہوگئی، تو انشاء اللہ اس سلسلہ میں پوری تفصیل وہاں پیش کی جائے گی۔ واللّٰہ الموفق وھو المستعان وعلیہ التکلان بہرکیف اس سے اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ معیار فضیلت و برتری تقویٰ و پرہیزگاری ہے۔ سو اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والا شخص وہ ہوگا اور وہی ہوسکتا ہے جو اس سے سب سے زیادہ ڈرنے والا اور اس کی مقرر فرمودہ حدود وقیود کی سب سے بڑھ کر پابندی کرنے والا ہوگا۔ خواہ وہ کوئی بھی ہو اور کہیں کا بھی ہو۔ اور اس کا تعلق کسی بھی قوم قبیلے سے ہو۔ وہ کوئی بھی زبان بولتا ہو اور کسی بھی رنگ اور نسل سے تعلق رکھتا ہو۔ [ 45] معاملہ اللہ کے ساتھ صحیح رکھنے کی ضرورت : کہ سب کچھ اسی وحدہٗ لاشریک کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ بیشک اللہ بڑا ہی جاننے والا پوری طرح باخبر ہے، سبحانہ و تعالیٰ ، اس لئے ظاہر تو ظاہر ہے تمہارے باطن کی کوئی کیفیت، اور تمہارے دلوں کی کوئی حالت بھی اس سے مخفی و مستور نہیں رہ سکتی، لہٰذا ہمیشہ اپنے باطن اور اپنے دلوں کی دنیا کو درست رکھو، کہ اس وحدہ لاشریک کی نظر ظاہر سے پہلے تمہارے باطن پر ہے، اور وہاں فیصلے صرف ظاہر داری پر نہیں، باطن اور اصل حقائق پر ہوتے ہیں، سو جو عزت کا مستحق ہوگا وہ اپنا مقام عزت بہرحال پاکر رہے گا، اگرچہ وہ کتنے ہی گمنام اور حقیر خاندان سے کیوں نہ اٹھا ہو، اور جو اس کے برعکس عزت و عظمت کا مستحق نہیں ہوگا وہ ذلت و رسوائی کے اس ہولناک گڑھے میں بالآخر گر کر رہے گا جس کا وہ سزا وار ہوگا، خواہ وہ کتنے ہی بڑے خاندان سے تعلق رکھنے والا کیوں نہ ہو، کہ اللہ تعالیٰ ہر کسی کو پوری طرح جانتا ہے سبحانہ ع تعالیٰ ، سو محض اپنے گھمنڈ اور زبانی کلامی دعوؤں سے کچھ نہیں بنتا خواہ کوئی سورج بنسی اور چاند بنسی ہی کیوں نہ بنتا ہو پس اصل چیز یہ ہے کہ اپنے اس خالق ومالک سے معاملہ صحیح رکھا جائے جس کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہر چیز کی باگ ڈور ہے اور جو بندے کے ظاہر و باطن سے پوری طرح واقف و آگاہ ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اللّٰہم فخذنا بنواصینا الی ما فیہ حبک ورضاک بکل ھال من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ۔
Top