Tafseer-e-Madani - Adh-Dhaariyat : 6
وَّ اِنَّ الدِّیْنَ لَوَاقِعٌؕ
وَّاِنَّ : اور بیشک الدِّيْنَ : جزا وسزا لَوَاقِعٌ : البتہ واقع ہونیوالی
اور بلاشبہ جزا و سزا (اور عدل و انصاف کے عمل) نے بہرحال ہو کر رہنا ہے
[ 5] جزا وسزا کا قیام ووجود قطعی طور پر حق ہے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ بلاشبہ جزاوسزا نے بہرحال واقع ہو کر رہنا ہے۔ تاکہ ہر کسی کو اس کی زندگی بھر کے کیے کرائے کا پورا پورا صلہ و بدلہ مل سکے۔ اور جب دنیا میں ایک فانی اور مجازی مالک بھی اپنے نوکروں اور ماتحتوں کو ایک برابر نہیں رکھتا بلکہ وہ ان کی دیانت و امانت اور کارکردگی کے مطابق ان سے معاملہ کرتا ہے، تو پھر یہ کس طرح ممکن ہوسکتا ہے کہ وہ مالک الملک جو کہ حقیقی مالک بھی ہے اور احکم الحاکمین بھی، وہ اپنے بندوں کے درمیان عدل و انصاف نہ فرمائے ؟ اور نیک و بد سب ایک ہی طرح رہیں ؟ پس حقیقی انصاف کے اس دن نے بہرحال واقع ہو کر رہنا ہے اور عقل و نقل دونوں کا تقاضا یہی ہے کہ اس کو مان کر اس کیلئے تیاری کی جائے، وباللّٰہ التوفیق، سو وقوع قیامت ایک ایسی قطعی حقیقت ہے جس نے اپنے وقت پر بہرحال ہو کر رہنا ہے اور اس حکمتوں بھری کائنات کی ایک ایک چیز اپنی زبان حال سے پکار پکار کر اس کی صداقت و حقانیت کی گواہی دے رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ جب اس کائنات کی ایک ایک چیز بامقصد ہے، تو پھر یہ کس طرح ممکن ہوسکتا ہے کہ یہ انسان جو اس ساری کائنات کا مخدوم ومطاع اور اس کا گل سرسبد ہے۔ اس کا وجود اور اس کی زندگی بےمقصد اور بےکار ؟ قدرت کی پیدا کردہ اور عطا فرمودہ ان عظیم الشان اور گوناگوں نعمتوں سے یہ دن رات لگاتار مستفید ہو، اور طرح طرح کے فائدے اٹھائے، اور اس سے کبھی باز پرس نہ ہو، اور یہ کائنات کی ایک ایک چیز تو با مقصد ہو، لیکن ان سب سے فائدہ اٹھانے والے اس انسان کا کوئی مقصد نہ ہو ؟ ، اور یہ برساتی منیڈکوں اور موسمی کیڑے مکوڑوں کی طرح اپنی طبعی زندگی پوری کرکے یوں ہی ختم ہوجائے ؟ سو نہیں، اور ہرگز نہیں ایسے کبھی اور کسی صورت میں نہیں ہوسکتا، بلکہ قیامت قائم ہوگی اور ہر کسی کو اپنے زندگی بھر کے کیے کرائے کا حساب دینا اور اس کا پھل پانا ہے، تاکہ اس طرح عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہوں اور اعلیٰ وجہ الکمال پورے ہوں۔ اس لئے قیامت کے اس یوم جزا کا وقوع لازمی اور عقل و نقل دونوں کا تقاضا ہے۔ وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید، بکل حال من الاحوال، جل وعلا،
Top