Tafseer-e-Majidi - Adh-Dhaariyat : 6
وَّ اِنَّ الدِّیْنَ لَوَاقِعٌؕ
وَّاِنَّ : اور بیشک الدِّيْنَ : جزا وسزا لَوَاقِعٌ : البتہ واقع ہونیوالی
اور جزا ضرور ہی ہونے والی ہے،1۔
1۔ (اس لیے تم میں سے ہر ایک اپنے اپنے عمل کی ذمہ داری پوری محسوس کرے) قرآن مجید کے پیش نظر ایک ایسی امت تیار کرنا ہے، جس کا ہر ہر فرد اپنے ایک ایک عمل میں زندگی کے ایک ایک جزئیہ میں، اپنی ذمہ داری کا پورا پورا احساس رکھتا ہو، اور کسی حال میں اس کے قدم کو لغزش نہ ہو۔ انسان کو ہمہ وقت صراط مستقیم پر قائم رکھنے کے لیے حشر کا اعتقاد ہی نہیں، بلکہ اس کا استحضار بھی لازمی ہے۔ (آیت) ” الذریت ذروا “۔ مرا دوہ ہوائیں ہیں جو غبار وغیرہ اڑاتی رہتی ہیں۔ (آیت) ” فالحملت وقرا “۔ مراد وہ بادل ہیں جو بارش سے لدے رہتے ہیں۔ (آیت) ” فالمقسمت امرا “۔ مراد وہ فرشتے ہیں جو مخلوقات میں مادی وغیر مادی ہر طرح کی تقسیمات بامر الہی کرتے رہتے ہیں۔ (آیت) ” انما تو عدون لصادق “۔ یعنی جس روز حشر کی آمد کا وعدہ تم سے کیا جارہا ہے وہ برحق ہے۔ کائنات کے یہ سارے انتظامات جو ہواؤں، بادلوں، کشتیوں اور فرشتوں کے ساتھ اس انضباط واہتمام کے ساتھ ہر وقت ہوتے رہتے ہیں۔ اس پر برہان قاطع ہیں کہ یہ ناسوتی زندگی بےمقصد نہیں ضرور اس کے ہر تصرف، ہر تغیر میں کوئی نہ کوئی رکھا ہے۔ حشر نام ہے اہم ترین مقصد کا۔ حشرنہ ہو تو یہ سارا نتظام واہتمام ہی بالکل بےمقصد اور اکارت ہوا جاتا ہے۔ اور یہی مقصود قرآنی قسموں کا ہوتا ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو پ 14، سورة الحجر کا ضمیہ ” اقسام قرانی “۔ بعض اہل اشارات نے لکھا ہے کہ آگے چونکہ ذکر حشر ہی کا آرہا تھا۔ اس لیے یہاں قسم کے ذریعہ سے شہادت میں بھی ایسی ہی چار چیزیں پیش کی گئیں جن سے اشارہ فناء انتشار اجزاء اعادہ اور ترکیب کے مدارج چہار گانہ کی طرف نکلتا ہے۔
Top