Tafseer-e-Madani - Adh-Dhaariyat : 9
یُّؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ اُفِكَؕ
يُّؤْفَكُ : پھیرا جاتا ہے عَنْهُ : اس سے مَنْ اُفِكَ : جو پھیرا جاتا ہے
اس سے وہی پھیرا جاتا ہے جو (ازل سے ہی) پھیر دیا گیا
[ 8] منکرین قانون مکافات کی رد میں۔ والعیاذ باللّٰہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اس سے وہی روگردانی کرتا ہے جس کی عقل الٹ دی گئی ہے۔ یعنی اس قرآن اور صاحب قرآن پر ایمان لانے سے اعراض و روگردانی ایسے ہی لوگ کرتے ہیں جن کی عقلیں الٹی اور اوندھی ہوگئیں ہیں اور ان کی مت ماری گئی ہے جو کہ محرومیوں کی محرومی ہے۔ والعیاذ باللّٰہ [ صفوۃ التفاسیر وغیرہ ] یا یہ مطلب ہے کہ ایسے شخص کو راہ حق سے اس کے اس قول مختلف کی بناء پر پھیرا جاتا ہے جس سے وہ ایمان لانے سے محروم ہوجاتا ہے، والعیاذ باللّٰہ۔ سو اس قول حق و صدق سے اغراض اور روگردانی وہی لوگ کرتے ہیں جن کی مت ماری گئی، اور اس وجہ سے ان کو سیدھی بات بھی الٹی نظر آتی ہے، اور اس کے نتیجہ میں وہ سیدھے چلنے کی بجائے الٹے اور اوندھے چلنے لگتے ہیں، والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ ورنہ ایسے لوگ اگر اپنے دماغ کو ایسے تناقضات سے پاک کرکے سوچیں تو ان کو بات کی پوری طرح سمجھ آسکتی ہے، کیونکہ سزاوجزا کا معاملہ بالکل ایک طبعی اور بدیہی حقیقت ہے، مگر جن لوگوں کی عقلیں الٹی اور اوندھی ہوجاتی ہیں ان کو قدرت کے قانون مکافات کی بناء پر اس سے برگشتہ کردیا جاتا ہے۔ سو ایسے لوگ مکافات کی زد میں ہیں جیسا کہ دوسرے مقام پر ایسے لوگوں کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا { فلما زاغوا ازاغ اللّٰہ قلوبھم } یعنی جب یہ لوگ ٹیڑھے ہوگئے تو اللہ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کردیا یعنی یہ تقاضا اور نتیجہ ہے اس کے قانون مکافات اور عدل وانصاف کا والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ اس سے وہی پھیرا جاتا ہے جس کی مت ماری گئی ہو۔ اس کی اپنی اس بدنیتی اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے جو اللہ پاک کے علم میں ازل سے موجود تھی اور ہے، والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ اور ایک مطلب اس کا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس قول مختلف کی وجہ سے وہی پھیرا جاتا ہے جو کہ ازل سے اور علم الٰہی ہی میں پھیرا گیا ہو، بہرکیف یہ ایک اہم اور بنیادی حقیقت ہے کہ انسان کے بناؤ بگاڑ اور اس کی صحت و فساد کا مدارو انحصار اصل اور بنیادی طور پر اس کے اپنے ہی ارادہ نیت اور اس کے قلب و باطن پر ہے، سو جس کے اندر ہدایت کی صحیح معنوں میں طلب و تلاش ہوگی، اور اس کا باطن درست ہوگا تو اس کو اللہ پاک نور حق و ہدایت سے نوازے گا، کہ اس کا تو کام ہی نوازنا اور لگاتار و مسلسل نوازنا ہے، سبحانہ وتعالیٰ ، اور اس کے برعکس جس کی نیت خراب اور اس کا باطن سیاہ ہوگا، والعیاذ باللّٰہ تو وہ محروم ومطرود ہوگا، اور وہ " نولہ ما تولی ونصلہٖ جھنم " کا مصداق بن جائے گا والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ ایسے لوگ دراصل قانون الٰہی اور دستور خداوندی کی زد میں آئے ہوئے ہیں کیونکہ خداوند قدوس کا قانون و دستور اور اس کی سنت یہی ہے کہ ہدایت و ضلالت کے سلسلے میں کوئی جبر اکراہ نہیں بلکہ معاملہ اصل میں انسان کے اپنے ارادہ و اختیار پر ہے۔ جو جدھر چلنا چاہتا ہے اس کو ادھر چلتا کردیا جاتا ہے اور جب وہ ٹیڑھے پن کو اختیار کرتا ہے تو اللہ ان کے دلوں کر ٹیڑھا کردیتا ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا { واذ قال موسیٰ لقومہٖ لم توذوننی وقد تعلمون انی رسول اللّٰہ الیکم ط فلما زاغوآ ازاغ اللّٰہ قلوبھم واللّٰہ لا یھدی القوم الفٰسقین } [ سورة الصَّف : 5 پ 28] یعنی جب یہ لوگ ٹیڑھے ہوگئے تو اللہ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کردیا۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے ہمیشہ محفوظ رکھے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین یا ارحم الراحمین۔
Top