Tafseer-e-Madani - At-Tur : 36
اَمْ خَلَقُوا السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ١ۚ بَلْ لَّا یُوْقِنُوْنَؕ
اَمْ خَلَقُوا : یا انہوں نے پیدا کیے السَّمٰوٰتِ : آسمان وَالْاَرْضَ ۚ : اور زمین بَلْ لَّا يُوْقِنُوْنَ : بلکہ وہ یقین نہیں کرتے
کیا انہوں نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین (کی اس حکمتوں بھری کائنات) کو ؟ نہیں بلکہ یہ لوگ یقین نہیں رکھتے1
[ 44] منکرین کے عقول و ضمائر سے دوسرا سوال : سو ایسوں کے قلوب و ضمائر کو جھنجھوڑنے کے لئے ان سے دوسرا بڑا اور واضح سوال یہ کیا گیا کہ کیا انہوں نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو ؟ جب نہیں اور یقینا نہیں، تو اس سب کا خالق اللہ وحدہٗ لاشریک کے سوا اور کون ہوسکتا ہے ؟ اور عبادت و بندگی کا حق اس وحدہٗ لاشریک کے سوا اور کسی کو کیونکر ہوسکتا ہے ؟ جس نے خود ان کو بھی پیدا کیا اور ان کے فائدے کیلئے آسمانوں اور زمین کی اس حکمتوں سے پر اور طرح طرح کے فوائد اور عجائب وغرائب سے بھری اس ساری کائنات کو بھی پیدا فرمایا ؟ فلہ الحمد والمنۃ۔ سو اس قادر مطلق کیلئے اس انسان کو اور اس پوری کائنات کو دوبارہ پیدا کردینا آخر کیوں اور کیا مشکل ہوسکتا ہے ؟ سبحانہ وتعالیٰ ۔ پس اس میں یہ درس اور دعوت ہے کہ ان کے پاؤں کے نیچے بچھا ہوا زمین کا یہ حکمتوں بھرا اور عظیم الشان فرش و بچھونا اور ان کے سروں کے اوپر تنی ہوئی آسمان کی یہ عظیم الشان اور بےمثال چھت، اور ان دونوں کے درمیان نہایت حکمت اور انتائی قرینے سے چنی ہوئی یہ گونا گوں اور عظیم الشان نعمتیں، آخر کس کی قدرت و حکمت اور عنایت و رحمت کا نتیجہ ہیں ؟ اور اسکا ان پر کیا حق واجب ہوتا ہے ؟ اور اس کے اس عظیم الشان حق کی ادائیگی کی کیا صورت ہوسکتی ہے ؟ اور کیا ان لوگوں سے ان نعمتوں کے بارے میں کبھی پوچھ گچھ نہیں ہونی چاہیے ؟ سو کائنات کی اس عظیم الشان اور کھلی کتاب میں غور کرنے والوں کے لئے بڑے عظیم الشان درسہائے عبرت و بصیرت ہیں۔ وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید، سبحانہ وتعالیٰ ۔ [ 45] منکرین کے اصل مرض کی تشخیص : سو ارشاد فرمایا گیا ایسے بدبختوں کے اصل مرض کی تشخیص کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ نہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ ایمان لانا چاہتے ہی نہیں، تو پھر یہ لوگ غور کریں، کہ آخر ان کو ہدایت ملے تو کس طرح ؟ اور کیونکر ؟ سو اپنے اس خبث باطن اور سُوئِ اختیار کے نتیجے میں یہ لوگ حضرت حق جل مجدہ۔ کی قدرت اور اس کی وحدانیت پر ایمان و یقین کی دولت سے محرومی کے باعث طرح طرح کے غلط راستوں پر چل رہے ہیں، والعیاذ باللہ، سو اس مختصر سے جملے سے اصل حقیقت کا اظہار فرما دیا گیا اور ان کے اصل مرض کی تشخیص فرما دی گئی کہ جہاں تک حق اور حقیقت کا تعلق ہے وہ تو پوری طرح واضح ہے اور عقل و نقل دونوں اس پر متفق ہیں کہ قیامت قائم ہونی چاہئے اور وہ ضرور قائم ہوگی، تاکہ عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہوں، اور اپنی آخری اور کامل شکل میں پورے ہوں، مگر جو لوگ ایک بےنتھے بیل کی طرح اپنی خواہشات کے پیچھے چلنا اور شتر بےمہار کی طرح زندگی گزارنا چاہتے ہیں، وہ اس بات کو ماننا اور اس پر ایمان لانا نہیں چاہتے، تاکہ اس طرح ان کی خواہشات پر کوئی قدغن نہ لگنے پائے، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ { بل یرید الانسان لیفجر امامہٗ } [ القیامۃ : 5 پ 29] یعنی اصل وجہ یہ ہے کہ ایسا منکر انسان تو یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنی آئندہ زندگی میں بھی فسق و فجور کی راہ پر چلتا رہے تو پھر خواہشات نفس کے ایسے پجاریوں کو حق و ہدایت کی دولت اور نور ایمان و یقین ملے تو کیسے اور کیونکر ؟ جب کہ اس سے سرفرازی کے لئے اولین شرط اور بنیادی تقاضا طلب صادق ہے ؟ سو خواہش پرستی اور ہٹ دھرمی محرومیوں کی محرومی اور فساد بگاڑ کی بنیاد ہے کہ اس کی بناء پر انسان اندھا اور اوندھا ہو کر ہلاکت و تباہی کی راہ پر چل پڑتا ہے۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ من کل زیغ و ضلال وسواء وانحراف، وھو الھادی الیٰ سواء السبیل۔
Top