Tafseer-e-Madani - An-Najm : 19
اَفَرَءَیْتُمُ اللّٰتَ وَ الْعُزّٰىۙ
اَفَرَءَيْتُمُ اللّٰتَ : کیا پھر دیکھا تم نے لات کو وَالْعُزّٰى : اور عزی کو
تو کیا تم لوگوں نے کبھی لات اور عزی کی حقیقت پر بھی کچھ غور کیا ؟
[ 21] مشرکین کی تحقیر و ملامت ان کے شرک پر : سو ارشاد فرمایا گیا اور مشرکین سے تحقیر آمیز خطاب میں ارشاد فرمایا گیا کہ کیا تم لوگوں نے کبھی لات کو بھی دیکھا ؟ یعنی اس کی حقیقت کے بارے میں بھی کبھی غور کیا ؟ کہ یہ کیا چیزیں ہیں جن کو تم لوگوں نے اپنے ہاتھوں سے گھڑ کر اپنا معبود اور حاجت روا بنا رکھا ہے، آخر تمہاری عقلوں کو کیا ہوگیا ؟ اور تمہاری مت کہاں اور کیسے مار دی گئی ؟ اور تم کیوں اور کیسے مرتد ہوگئے ؟ جل وعلا العیاذ باللّٰہ۔ یہ بت طائف میں تھا جس کی بنو ثقیف پوجا کیا کرتے تھے یہ دراصل ایک نیک شخص تھا، جو حاجی صاحبان کو ستّو گھول کر پلایا کرتا تھا، پھر جب یہ مرگیا تو کچھ لوگ اس کی قبر پر مجاور بن کر بیٹھ گئے، پھر انہوں نے اس کی مورتی بنا کر اس کو پوجنا شروع کردیا، جیسا کہ صحیح بخاری وغیرہ میں حضرت ابن عباس ؓ ما سے مروی ہے۔ [ ابن کثیر، روح، خازن اور مراغی وغیرہ ] اس کے مادہ اشتقاق میں کئی اقوال ہیں، رو التفصیل فی المفصل ان شاء اللّٰہ بہرکیف مشرکین کے یہاں اس بت کا ایک خاص اور ممتاز مقام تھا، اور یہاں پر مشرکین سے یہ سوال و استفہام تعجب اور تحقیر و استخفاف کے لئے ہے، یعنی کہاں وحی لانے والے فرشتے جبریل امین کی وہ صفات جو اوپر ذکر ہوئیں، جو کہ سب سے اعلیٰ درجے کے مردانہ صفات ہیں، جیسے " شدید القویٰ "۔ " ذو مرۃٍ عند ذی العرش مکین " [ التکویر : 20] اور " متاعٍ ثم امین " [ التکویر : 21] اور کہاں تمہاری یہ بےحقیقت اور بےجان مورتیاں جن کو تم نے خود گھڑا ہے، خود ان کے زنانہ نام رکھے ہیں، اور ازخود ان کو خدائے وحدہٗ لاشریک کا شریک اور سہیم قرار دے رکھا ہے، اور ان کے آگے جھک کر اور سجدہ ریز ہو کر تم اپنی تذلیل و تحقیر کا سامان خود اپنے ہاتھوں کرتے ہو۔ والعیاذ باللّٰہ۔ سو شرک ایک ایسا ہولناک جرم ہے جو انسان کو انسانیت کے منصہ شرف سے گر کر حیوانات کے قعر مذلت میں پہنچا دیتا ہے، بلکہ اس سے بھی نیچے گر کر وہ اس کو " اسفل السافلین " بنا دیتا ہے، جس کے نتیجے میں وہ انسانوں بلکہ حیوانوں بلکہ اس سے بھی نیچے گر کر وہ جمادات اور پتھروں کی پوجا کرنے لگتا ہے اور اس طرح وہ ذلتوں پر ذلتیں اٹھاتا، اور محرومی در محرومی کا شکار بنتا چلا جاتا ہے، اور وہ بھی اس طور پر کہ اس کو اپنی اس حرمان نصیبی اور خسران مبین کا کوئی شعور و احساس تک نہیں، تو پھر اس سے بڑھ کر ہلاکت و تباہی اور کیا ہوسکتی ہے ؟ والعیاذ باللّٰہ۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی پناہ میں رکھے اور ہمیشہ راہ حق و صواب پر مستقیم و ثابت قدم رہنے کی توفیق بخشے، آمین ثم آمین۔ [ 22] عُزّٰی دیوی کی حقیقت میں غور و فکر کی دعوت : سو ارشاد فرمایا گیا کہ کیا تم لوگوں نے کبھی عزی کو بھی دیکھا، یعنی اس کی حقیقت میں بھی غور کیا ؟ یعنی تم لوگ اس کے بارے میں سوچو اور غور کرو کہ آخر یہ بےحقیقت اور بےجان مورتیاں تمہاری معبود اور تمہاری حاجت روا و مشکل کشاکس طرح ہوسکتی ہیں ؟ یہ بت مکہ اور طائف کے درمیان وادیء نخلہ میں تھا جو اصل میں ایک درخت تھا جس پر تعمیر بھی تھی اور اس پر جھنڈیاں بھی باندھ کر رکھی گئیی تھیں، حضور ﷺ نے حضرت خالد بن ولید ؓ کو اس کے کاٹنے کیلئے بھیجا، اور جب انہوں نے اس کو کاٹا تو اس سے چڑیل قسم کی ایک شیطان عورت نکلی، جس کے بال بکھرے ہوئے تھے اور وہ اپنے سر پر ہاتھ رکھ کر واویلا کرنے لگی، تو حضرت خالد بن ولید ؓ نے اپنے تلوار جوہردار سے اس کا کام بھی تمام کردیا، جب واپس آکر آپ ؓ نے یہ قصہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پیش کیا، تو حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا یہی عزی دیوی تھی جس کی آئندہ کبھی پوجا نہیں ہوسکے گی [ فقال تلک العزی ولن تعبدابدا ] جیسا کہ سنن نسائی وغیرہ نے حضرت ابو الفضل سے روایت کیا ہے [ روح، قرطبی، خازن، محاسن، جامع، اور وجیز وغیرہ ] بہرکیف عزی کے اس بت کا مشرکین کے یہاں بڑا خاص درجہ اور مقام تھا، اور اس کی پوجا پر وہ لوگ فخر کیا کرتے تھے چناچہ غزوہ و احد کے موقع پر ابو سفیان نے اسی کے نام کا فخریہ نعرہ لگاتے ہوئے کہا تھا۔ لنا العزی ولا عزی لکم۔ [ یعنی ہمارے لئے عزی دیوی ہے اور تمہارے لئے کوئی عزی نہیں ] تو اس کے جواب میں آنحضرت ﷺ نے اپنے صحابہ کرام ؓ کو اس طرح کہنے کی ہدایت فرمائی تھی " اللّٰہُ مولانا ولا مولی لکم " [ یعنی اللہ ہمارا حامی و ناصر اور مولی و کارساز ہے اور تمہارا مولی و کارساز کوئی نہیں ] والعیاذ باللّٰہ جل وعلا بکل حال من الاحوال،
Top