Tafseer-e-Madani - Al-A'raaf : 153
وَ الَّذِیْنَ عَمِلُوا السَّیِّاٰتِ ثُمَّ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِهَا وَ اٰمَنُوْۤا١٘ اِنَّ رَبَّكَ مِنْۢ بَعْدِهَا لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
وَالَّذِيْنَ : اور جن لوگوں نے عَمِلُوا : عمل کیے السَّيِّاٰتِ : برے ثُمَّ : پھر تَابُوْا : توبہ کی مِنْۢ بَعْدِهَا : اس کے بعد وَاٰمَنُوْٓا : اور ایمان لائے اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب مِنْۢ بَعْدِهَا : اس کے بعد لَغَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان
اور جن لوگوں نے برائیوں کا ارتکاب کیا، پھر انہوں نے اس کے بعد توبہ کرلی، اور وہ ایمان لے آئے، تو بیشک تمہارا رب اس کے بعد بڑا ہی بخشنے والا، نہایت ہی مہربان ہے،3
204 توبہ کرنے والوں کیلئے معافی کا مژدہ جانفزا : سو ارشاد فرمایا گیا کہ جن لوگوں نے برائیوں کا ارتکاب کیا پھر انہوں نے اس کے بعد صدق دل سے توبہ کرلی ان برائیوں پر نادم ہو کر جن کا ارتکاب وہ اس سے پہلے کرتے رہے۔ ان کو پکے ارادے کے ساتھ ترک کر کے اپنے رب ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ کی طرف سچے دل سے رجوع ہو کر۔ کہ یہ باتیں سچی اور حقیقی توبہ کے اہم اور بنیادی عناصر ہیں۔ سو ایسی سچی اور حقیقی توبہ کرنے والوں کیلئے مغفرت و بخشش کا مژدہ ہے نہ کہ صرف زبانی طور پر توبہ توبہ کے الفاظ کہہ دینے والوں کیلئے۔ پس جو لوگ گوسالہ پرستی کے اس سنگین جرم سے سچی توبہ کر کے اپنے ایمان کی تجدید کریں گے اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو معاف فرما دے گا کہ وہ بڑا معاف فرمانے والا ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ سو یہ اس کے کرم واحسان اور اس کی شان مغفرت و بخشش ہی کا ایک ثبوت و مظہر ہے کہ اس نے اپنے بندوں کے لیے توبہ و استغفار اور انابت ورجوع الی اللہ کا دروازہ کھلا رکھا ہے ۔ فلہ الحمد ولہ الشکر فاغفر لی وارحمنی یا رب العالمین - 205 اللہ تعالیٰ کی صفت مغفرت و رحمت کا حوالہ و ذکر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اور حرف تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ بیشک اللہ بڑا ہی غفور و رحیم ہے۔ اتنا بڑا کہ نہ اس کی مغفرت و بخشش کا کوئی ٹھکانہ اور نہ اس کی رحمت و عنایت کا کوئی کنارہ۔ پس گناہ جتنے بھی زیادہ ہوں بخش دئے جائیں گے کہ اس کی بخشش کا کوئی کنارہ نہیں ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اور وہ صرف بخشتا ہی نہیں بلکہ رحم بھی فرماتا ہے کہ وہ غفور کے ساتھ رحیم بھی ہے ۔ جَلّ جَلَالُہ وَعَمّ نَوَالُہ ۔ توبہ البتہ سچی ہونی چاہیئے ۔ اللہ نصیب فرمائے ۔ آمین۔ یہاں پر یہ بھی واضح رہے کہ یہاں توبہ کے ساتھ ایمان کی شرط بھی مذکور ہے { ثُمَّ تَابُوْا مِنْ بَعْدھَا وَاٰمَنُوْا } سو اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض گناہ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے ساتھ انسان کا ایمان بھی سلب ہوجاتا ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ اور بنی اسرائیل کا یہ گناہ انہی گناہوں میں سے تھا جس سے انسان کا ایمان رخصت ہوجاتا ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ اس لئے یہاں پر توبہ کے ساتھ تجدید ایمان کی شرط لگا دی گئی۔ اگر گناہ کی نوعیت یہ نہ ہو تو اس میں توجہ کے ساتھ رویئے کی اصلاح کافی ہوتی ہے۔
Top