Anwar-ul-Bayan - Aal-i-Imraan : 131
وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًا١ؕ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ١ؕ قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا١ؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَۚ
وَ : اور اِلٰي : طرف مَدْيَنَ : مدین اَخَاهُمْ : ان کے بھائی شُعَيْبًا : شعیب قَالَ : اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اعْبُدُوا : عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ مَا لَكُمْ : نہیں تمہارا مِّنْ : سے اِلٰهٍ : معبود غَيْرُهٗ : اس کے سوا قَدْ جَآءَتْكُمْ : تحقیق پہنچ چکی تمہارے پاس بَيِّنَةٌ : ایک دلیل مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب فَاَوْفُوا : پس پورا کرو الْكَيْلَ : ناپ وَالْمِيْزَانَ : اور تول وَلَا تَبْخَسُوا : اور نہ گھٹاؤ النَّاسَ : لوگ اَشْيَآءَهُمْ : ان کی اشیا وَلَا تُفْسِدُوْا : اور فساد نہ مچاؤ فِي الْاَرْضِ : زمین (ملک) میں بَعْدَ : بعد اِصْلَاحِهَا : اس کی اصلاح ذٰلِكُمْ : یہ خَيْرٌ : بہتر لَّكُمْ : تمہارے لیے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
اور مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا،2 انہوں نے بھی یہی دعوت دی کہ اے میری قوم ! تم اللہ ہی کی بندگی کرو کہ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، بلاشبہ آچکی تمہارے پاس، ایک روشن دلیل، تمہارے رب کی جانب سے، پس تم پورا کرو ناپ اور تول کو، اور کم کر کے نہ دو لوگوں کو ان کی چیزیں، اور فساد مت پھیلاؤ تم لوگ (اللہ کی) زمین میں، اس کی اصلاح کے بعد، یہی (جو کچھ میں کہہ رہا ہوں) بہتر ہے تمہارے لئے اگر تم لوگ ایماندار ہو،3
115 پیغمبر کی زندگی کا اصل مرحلہ دعوت و تبلیغِ حق : یہ اسی حقیقت کا اعادہ و تکرار ہے جو کئی بار بیان ہوچکی ہے کہ اصل چیز دعوت و تبلیغ کا کام ہے نہ کہ ولادت و میلاد کا ذکر وبیان۔ اور اس نام سے ان حضرات کے ایام ولادت پر جشن منانا۔ اسی لیے ہر پیغمبر کا ذکر اس کی بعثت اور دعوت کے مرحلے سے ہی شروع ہوتا ہے اور ان کی ولادت و میلاد وغیرہ کا کہیں کوئی ذکر نہیں کیا جاتا۔ نیز یہ کہ پیغمبر کو اپنی امت کا بھائی کہنامنع نہیں۔ جیسا کہ بعض برخود غلط لوگوں کا کہنا ہے۔ کہ اس آیت کریمہ میں اور اس جیسی متعدد آیات کریمہ میں حضرات انبیائے کرام ۔ علیہم الصلوۃ والسلام ۔ کو ان کی قوموں کا بھائی فرمایا گیا ہے کہ پیغمبر اپنی قوم کا اس اعتبار سے بھائی ہی ہوتا ہے۔ اور اگر وہ قوم ایمان لے آئے تو پھر اس قومی اخوت کے ساتھ دینی اور ایمانی اخوت بھی جمع ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد پیغمبر اپنی قوم کا دینی اور ایمانی بھائی بھی بن جاتا ہے۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ " ہم نے قوم مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو رسول بنا کر بھیجا "۔ اور مدین کے یہ لوگ ایک اہم تجارتی سنگم پر واقع تھے۔ اس لئے انہوں نے تجارت میں بہت ترقی کی اور بڑا نام کمایا۔ اور پھر دوسری مختلف بیماریوں کے علاوہ یہ لوگ ناپ تول میں کمی کے روگ میں مبتلا ہوگئے۔ 116 پیغمبر کا وجود ایک دلیل روشن : پیغمبر کا وجود بذات خود ایک " بینہ " اور " روشن دلیل " کی حیثیت رکھتا ہے کہ وہ اپنی پاکیزہ زندگی کے علاوہ اللہ پاک کی طرف سے ایسی ٹھوس اور واضح تعلیمات لے کر آتا ہے جو حق کو باطل سے اور صحیح کو غلط سے بالکل الگ کر کے اور نکھار کر رکھ دیتی ہیں۔ نیز ان کی نبوت و رسالت بھی معجزات و دلائل کے ذریعے قطعی طور پر واضح ہوجاتی ہے۔ اس لیے بعض نے کہا کہ یہاں پر " بینہ " سے مراد خود پیغمبر کی ذات اور ان کی بعثت اور تشریف آوری ہے۔ کیونکہ اس کے سوا کسی اور معجزے کا اس بارے کوئی ذکر موجود نہیں۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حضرت شعیب کو اور کوئی معجزہ دیا گیا ہو لیکن اس کا ذکر نہ فرمایا گیا ہو۔ آخر قرآن پاک میں سب انبیائے کرام کے تمام معجزات تھوڑے ہی ذکر فرمائے گئے ہیں۔ (المراغی، المحاسن وغیرہ) ۔ 117 اللہ کی زمین میں فساد مت پھیلاؤ : کفر و شرک کا ارتکاب کر کے اور اللہ کی مقرر کردہ حدوں کو توڑ کر کہ اللہ پاک کی مقرر فرمودہ حدود کو توڑنا اور ان کو پھلانگنا اور اللہ کے دین سے منہ موڑ کر کفر و شرک میں مبتلا ہونا، فتنہ و فساد اور خرابی و دمار کی جڑ بنیاد ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ جبکہ اللہ پاک نے اس زمین کو ایسا بنایا کہ یہ مخلوق کی تمام ضرورتوں کی کفیل اور ان کی بود و باش کیلئے نہایت صالح اور عین مناسب ہے۔ سو ایسے میں اس میں فساد و بگاڑ بہت برا اور عدل و انصاف کے تقاضوں کے یکسر منافی ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ بہرکیف اللہ تعالیٰ جب قائم بالقسط ہے اور اس نے اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے آسمان و زمین کی اس عظیم الشان اور حکمتوں بھری کائنات کو نہایت پر حکمت توازن اور ایک عظیم الشان میزان پر قائم فرمایا ہے تو وہ اپنے بندوں سے بھی یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے دائرئہ اختیار میں اپنا نظام عمل اور اپنا تعامل باہمی عدل و انصاف اور وزن و قسط پر قائم کریں اور اس کے تقاضوں کی پوری رعایت رکھیں۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا { وَوَضَعَ الْمِیْزَانَ ، اَنْ لَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ ، وَاَقِیْمُوْا الْوَزْنَ بالقِسْطَ وَلَا تُخْسِرُو الْمِیْزَان } (الرحمن : 7-9) سو جس طرح آسمان و زمین کے میزان میں اگر پل بھر کے لئے خلل آجائے تو زمین و آسمان کی یہ ساری کائنات درہم برہم ہوجائے، تو اسی طرح اگر بندے اپنے دائرئہ اختیار میں ناپ تول میں خلل اور کمی بیشی سے کام لیں گے تو پورا نظام عدل و انصاف مختل ہوجائے گا ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اسی حقیقت کی تذکیر و یاد دہانی کراتے ہوئے ناپ تول میں کمی سے منع فرمایا اور ان کو بتایا کہ یہ چیز زمین کے لئے فساد و بگاڑ ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ 118 زمین کی صلاح سے مراد ؟ : یہ کہ حضرت خالق ۔ جل مجدہ ۔ نے ایک طرف تو اس کرئہ ارضی کو پیدا ہی ایسے حکیمانہ اصولوں پر فرمایا ہے جو کہ اس پر زندگی گزارنے والی گوناگوں مخلوق کی طبیعت و فطرت کے عین مطابق ہیں۔ اور دوسری طرف اس نے اپنے انبیاء و رسل کی بعثت و رسالت اور ان پر اتاری جانیوالی تعلیمات مقدسہ کے ذریعے اس پر بود و باش کے ایسے صحیح اور مستحکم طور طریقوں کی تعلیم دی جو کہ امن و سلامتی کے ضامن و کفیل ہیں۔ (المراغی، المحاسن، الصفوۃ وغیرہ) ۔ سو دین حق کی تعلیمات مقدسہ سے منہ موڑنا فساد اور خرابی ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے، تسلیم کرے یا نہ کرے، حق اور حقیقت بہرحال یہی ہے۔ اور امن و سلامتی کی راہ اس دین حق سے وابستگی ہی میں مضمر ہے، جس کو اللہ پاک نے لوگوں کی ہدایت و اصلاح کیلئے نازل فرمایا ہے۔ سو جیسا کہ ابھی اوپر کے حاشیے میں گزرا، آسمان و زمین کی اس کائنات کا نظام عدل و قسط اور میزان پر قائم ہے، اسی طرح اس زمین کا نظام معیشت و معاشرت عدل و انصاف پر قائم ہے۔ 119 ایمان و یقین کا تقاضا، پیغمبر کی پیروی و اتباع : کہ ایمان و عقیدہ کا تقاضا یہی ہے۔ نیز تمہارے ایمان کی بدولت اس کا فائدہ تمہیں دنیا میں بھی ملے گا اور آخرت میں بھی۔ جبکہ کافر کے لئے صرف یہ دنیا ہی دنیا ہے اور بس۔ سو ایمان و یقین کے دعوے کا تقاضا یہ ہے کہ پیغمبر کے ارشادات اور ان کی تعلیمات کو صدق دل سے اپنایا جائے اور ہر حال میں ان کی پیروی اور اتباع کی جائے ۔ وباللہ التوفیق ۔ پس تم لوگ اگر اپنے دعویٰ ایمان میں سچے ہو تو فساد و بگاڑ کی روش کو چھوڑ کر اصلاح احوال کے اس طریقے کو اپناؤ جس کی دعوت میں تمہیں دیتا ہوں۔
Top