Tafseer-e-Madani - An-Naba : 36
جَزَآءً مِّنْ رَّبِّكَ عَطَآءً حِسَابًاۙ
جَزَآءً : بدلہ ہے مِّنْ رَّبِّكَ : تیرے رب کی طرف سے عَطَآءً : بدلہ/ بخشش حِسَابًا : بےحساب/ کفایت کرنے والی
صلہ ہوگا نہایت کافی بخشش کے طور پر تمہارے اس رب (غفور و شکور) کی جانب سے
(30) جنتیوں کے لئے ایک عظیم الشان صلہ وبدلہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ان خوش نصیبوں کو یہ سب کچھ ملے گا ایک عظیم الشان جزا اور بدلے کے طور پر، یعنی ان کے ان نیک اعمال کا صلہ جو کہ انہوں نے دنیا میں رب تعالیٰ کی رضا کے لئے کیے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ کے اس کرم بےپایاں کا ظاہری سبب تو بہرحال انسان کے یہ نیک اعمال ہوں گے، جو وہ اس دنیا میں اپنی آخرت کے لئے کرتا ہے مگر اصل حقیقت کے اعتبار سے جنت کی ان نعمتوں سے ان کی سرفرازی محض اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت اور اس کے فضل وکرم سے ہی ہوگی، پس جس طرح اوپر دوزخیوں کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ ان کو ان کے کیے کرائے کی بالکل برابر سزا ملے گی، اسی طرح یہاں پر اہل جنت کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ ان کو ان کی نیکیوں کا پورا پورا صلہ و بدلہ ملے گا، جو انہوں نے دنیا میں کی ہوں گی، کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کی کسی چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو بھی ضائع نہیں ہونے دے گا، اور اہل ایمان کے لئے جو فضل کا وعدہ ہے، وہ اس پر مزید ہے، اللہ نصیب فرمائے اور محض اپنے فضل و کرم سے نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔ بہر کیف ارشاد فرمایا گیا کہ ان کو یہ سب کچھ نہایت کافی عطاء و بخشش کے طور پر ملے گا۔ ورنہ حقیقت نفس الامری اور امر واقع کے اعتبار سے کہ انسان کے نیک اعمال خواہ کتنے ہی کیوں نہ ہوں، وہ جنت کا ثمن اور اس کا مول بہر حال نہیں بن سکتے۔ وہ تو اللہ پاک کی ان نعمتوں کا مول بھی نہیں بن سکتے جو اس نے انسان کو اس دنیا میں عطا فرمائی ہیں، چہ جائیکہ جنت کا مول بن سکیں، سو وہ خالص اس واہب مطلق جل جلالہ کی عطا و بخشش ہوگی، سبحانہ و تعالی، اور یہ عطا و بخشش اس قدر بڑی اور اس حد تک کافی و وافی ہوگی کہ اس کے بعد ان کو اور کسی بھی چیز کی کسی بھی درجے میں ضرورت نہ ہوگی، نیز یہ عطاء و بخشش ان کے ایمان و یقین، صدق و اخلاص، اور عمل و کردار کے لحاظ سے بھی کافی و وافی ہوگی، جو ان کو ہر طرف سے اور ہر اعتبار سے مستغنی و بےنیاز کر دے گی، سو حساب کے لفظ میں یہ سب کچھ آگیا کیونکہ عربی زبان و محاورہ میں کہتے ہیں " اعطانی فاحسبنی " کہ اس نے مجھے اتنا دیا کہ مجھے اور کسی کی ضرورت نہیں رہی، اور اسی سے آتا ہے، " حسبی اللہ " یعنی اللہ مجھے ہر طرح سے اور ہر ضرورت و حاجت کے لئے کافی ہے۔ سبحانہ و تعالی۔ (ابن کثیر، مدارک، محاسن التاویل اور المراغی وغیرہ) بہرکیف اس سے واضح فرمایا گیا کہ اہل جنت کو صرف وہی کچھ نہیں ملے گا جس کے وہ اپنے اعمال کے نتیجے میں مستحق ہوں گے، اور صرف اتنا ہی نہیں ملے گا جس کے وہ مستحق ہوں گے، بلکہ ان کو اس سے بھی کہیں زیادہ ملے گا اور اتنا کہ جس کا ان کو وہم و گمان بھی نہیں ہوگا، جبکہ اس کے مقابلے میں اہل دوزخ کو جزاء وفاق یعنی اپنے کیے کرائے کا بھر پور اور برابر سرابر بدلہ ملے گا۔ والعیاذ باللہ جل وعلا۔ بہرکیف جنتیوں کے انعامات کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ یہ انعام تمہارے رب کی جانب سے ہوگا پس جتنی اس رب کی شان بڑی ہوگی، اتنی ہی اس کی عطاء و بخشش بھی بڑی ہے، تبارک و تعالی۔ سو اللہ تعالیٰ کا معاملہ کافر کے ساتھ عدل یعنی برابری کا معاملہ ہوگا، کہ جو کچھ اس نے کیا وہ گا اس کو اس کے مطابق پورا پورا بدلہ ملے گا۔ نہ اس کے کیے سے کم، نہ زیادہ، اسی لیے اس کی جزا کے سلسلے میں فرمایا گیا " جزاء وفاقا " جبکہ مومن کے لیے اس کا معاملہ محض عدل کا نہیں بلکہ فضل اور مہربانی کا ہوگا، یعنی وہ اپنی شان رحمت و ربوبیت کی بناء پر اس کو اس کے استحقاق سے کہیں بڑھ کر اپنی رحمت و عنایت سے نوازے گا، دس گنا، سو گنا، سات سو گنا، اور اس سے بھی کہیں زیادہ، اس کے صدق و اخلاص اور ایمان و یقین کے درجات و مراتب کے اعتبار سے، سبحانہ و تعالی۔ سو ایک طرف تو یہ انعام رب تعالیٰ کی طرف سے ہوگا جس کی عظمت شان کا کوئی کنارہ نہیں، اور جس کی شان ربوبیت بےمثال ہے، اور دوسری طرف رب تعالیٰ کا یہ معاملہ اس کے ان نیک طینت اور ایماندار بندوں کے ساتھ عدل و مساوات کی بنیاد پر نہیں، بلکہ اس کے فضل و کرم اور انعام و احسان کی بنیاد پر ہوگا، سبحانہ و تعالی۔ اس آیت کریمہ میں رب کی اضافت ضمیر خطاب کی طرف فرمائی گئی ہے، جس سے مراد پیغمبر ہیں۔ علیہ السلام۔ سو اس میں پیغمبر کے لیے انعام و احسان کی طرف اشارہ ہے کہ آپ کی امت کو اس انعام و احسان سے نوازا گیا ہے۔ نیز اس میں امت پر بھی ایک احسان عظیم ہے کہ اس پیغمبر پر ایمان کی برکت سے اور اس کے نتیجے میں ان کو ان سرفرازیوں سے نوازا گیا ہے ( التحریر والتنویر لابن عاشور) اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر قائم رکھے۔ آمین ثم آمین۔ یا رب العالمین و یا ارحم الراحمین۔
Top