Tafseer-e-Mazhari - An-Naba : 36
جَزَآءً مِّنْ رَّبِّكَ عَطَآءً حِسَابًاۙ
جَزَآءً : بدلہ ہے مِّنْ رَّبِّكَ : تیرے رب کی طرف سے عَطَآءً : بدلہ/ بخشش حِسَابًا : بےحساب/ کفایت کرنے والی
یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے صلہ ہے انعام کثیر
جزاء من ربک عطاء ا . جزاءً ا اور عطآءً ا دونوں مصدر ہیں۔ فعل محذوف کے مفعول مطلق ہیں ‘ جملہ سابقہ کی تاکید کے لیے ہیں جیسے : جزاءً ا اوفاقًا میں ہم نے بیان کردیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کو کامل جزاء اور کامل عطاء دی جائے گی۔ (یہ فقیر کہتا ہے ‘ شاید یہ مطلب ہے کہ متقیوں کو جو کچھ ملے گا وہ بظاہر ان کے اعمال صالحہ کی جزاء ہوگی مگر حقیقت میں محض عطاء الٰہی ہوگی ‘ کیونکہ اعمال بذات خود موجب جزاء نہیں ہیں) ۔ حسابًا . یہ عطاءً ا کی صفت ہے پوری پوری ‘ کامل عطاء۔ اَحْسَبْتُ فُلَانًا کے معنی یہ ہیں کہ میں نے اس کو اتنا دیا جو اس کے لیے کافی تھا ‘ یہاں تک کہ اس نے بس کہہ دیا۔ ابن عتبہ نے کہا : عطاءً ا حسابًا : یعنی عطاء کثیر۔ برقول ابن عتبہ حسابًا تاکید لنفسہٖ ہوگا جیسے اللہ اکبر دعوۃ الحق اور لہ علی الف درھم اعترافًا۔ بعض علماء نے کہا : حسابًا کا معنی ہے ‘ اعمال کے موافق۔ بقدر اعمال ‘ قاموس میں ہے : ھذا بحسبہٖ یہ شمار میں اس کے برابر ہے ‘ اس صورت میں جزاءً ا وفاقًا کے مقابلہ میں جزاءً ا عطاءً ا حسابًا ہوگا ‘ مطلب یہ نکلے گا کہ اہل طغیان کو ان کے اعمال اور بیہودگیوں کے بقدر سزا ملے گی اور اہل تقویٰ کو ان کے اعمال کے مطابق جزاء۔ میں کہتا ہوں (جزاء اعمال کے مطابق نہیں) بلکہ اللہ کی مشیت اور فضل کے مطابق ملے گی کیونکہ اللہ نے خود فرمایا ہے : کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَۃِ ماءَۃُ حَبَّۃٍ ۔ وَ اللہ ُ یُضَاعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ اللہ ُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ اور اہل عمل کے اخلاص اور ان کے مراتب قرب کے اعتبار سے جزاء ملے گی کیونکہ مقربین کو تھوڑے عمل کا بھی اتنا اجر ملے گا کہ ابرار کو زیادہ عمل کا بھی نہیں ملے گا۔ بخاری اور مسلم نے صحیحین میں حضرت ابوسعید ؓ خدری کی روایت سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے صحابیوں کو گالیاں نہ دو اگر تم میں سے کوئی (کوہ) احد کے برابر سونا بھی (راہ خدا میں) خرچ کر دے تو صحابیوں کے ایک مد بلکہ آدھے مد کے برابر نہ ہوگا (مُد بقدر ایک سیر) اور یہ تفاوت اہل قرب کے آپس میں بھی درجات قرب کے فرق کے لحاظ سے ہوگا۔ مجدد صاحب (رح) نے لکھا ہے کہ تمام صحابہ ؓ اور بکثرت تابعین اور کچھ تبع تابعین یعنی مقربین کمالات نبوت کی وجہ سے دوامی تجلی ذات میں ڈوبے ہوئے تھے لیکن ان تینوں قرون (دوروں) کے بعد جن کے خیر ہونے کی شہادت (احادیث میں) آچکی ہے اس دولت عظمی کی روشنی بجھ گئی اور اس کے نشانات بھی مٹ گئے۔ پھر ہجرت سے ہزار سال کے بعد اللہ نے بعض بزرگوں کو پیدا کیا اور ان کو اوّلین کی طرح کمالات عطا فرمائے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے خود فرمایا تھا کہ میری امت بارش کی طرح ہے جس میں نہیں جانا جاسکتا کہ اس کا اوّل حصہ بہتر ہے یا آخر حصہ۔ ترمذی بروایت انس ؓ رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں اس امت کے اوّل و آخر کو یکساں قرار دیا کہ معلوم نہیں اس کا اوّل دور بہتر ہے یا آخر دور۔ حضرت جعفر بن محمد کے دادا کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : خوش ہوجاؤ ‘ بشارت سن لو کہ میری امت کی حالت بارش کی طرح ہے جس میں معلوم نہیں ہوتا کہ اس کا اوّل بہتر ہے یا آخر ‘ یا باغ کی طرح ہے جس سے ایک گروہ ایک سال اور دوسرا گروہ دوسرے سال پھل کھاتا ہے ‘ ممکن ہے کہ آخر (میں پھل کھانے والا) گروہ سب سے زیادہ لمبا چوڑا اور گہرا ہو اور سب سے زیادہ نیکیوں والا ہو۔ (الحدیث) بیہقی اور رزین نے نے ایک صحابی کی روایت سے جنہوں نے خود حضور ؓ سے سنا تھا ‘ نقل کیا ہے کہ اس امت کے آخر میں ایک قوم آئے گی ‘ جس کا اجر اوائل امت کی طرح ہوگا۔ (بیہقی فی دلائل النبوۃ) اس تفسیر پر جزاءً ا من ربک عطاءً ا حسابًا تاکید لغیرہ ہوگا جیسا کہ ہم نے جزاءً ا وفاقًا میں بیان کردیا۔
Top