Tafseer-e-Madani - At-Tawba : 121
وَ لَا یُنْفِقُوْنَ نَفَقَةً صَغِیْرَةً وَّ لَا كَبِیْرَةً وَّ لَا یَقْطَعُوْنَ وَادِیًا اِلَّا كُتِبَ لَهُمْ لِیَجْزِیَهُمُ اللّٰهُ اَحْسَنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
وَلَا يُنْفِقُوْنَ : اور نہ وہ خرچ کرتے ہیں نَفَقَةً : خرچ صَغِيْرَةً : چھوٹا وَّلَا كَبِيْرَةً : اور نہ بڑا وَّلَا يَقْطَعُوْنَ : اور نہ طے کرتے ہیں وَادِيًا : کوئی وادی (میدان) اِلَّا : مگر كُتِبَ لَھُمْ : تاکہ جزا دے انہیں لِيَجْزِيَھُمُ : تاکہ جزا دے انہیں اللّٰهُ : اللہ اَحْسَنَ : بہترین مَا : جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے (ان کے اعمال)
اور (اسی طرح) یہ لوگ جو بھی کچھ خرچ کرتے ہیں، خواہ وہ تھوڑا ہو یا بہت، اور جو بھی کوئی وادی یہ طے کرتے ہیں، (اللہ کی راہ میں) وہ سب ان کیلئے لکھ دیا جاتا ہے، تاکہ اللہ انہیں بہتر بدلہ دے ان کے ان کاموں کا جو یہ کرتے ہیں،
217 نیک اعمال کا بدلہ بہترین شکل میں : سو ارشاد فرمایا گیا کہ تاکہ اللہ تعالیٰ بہترین بدلہ دے ان لوگوں کو ان کے ان کاموں کا جو یہ کرتے ہیں یعنی نیک اعمال کا بدلہ صرف برابر، ناپ تول کر نہیں، بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر اور بہتر شکل میں دیا جائے گا۔ چناچہ انسان کو اپنے اعمال صالحہ کے نتیجے میں جنت کی وہ دائمی اور ابدی نعمتیں بخشی جائیں گی جو بےمثال محدود و غیرمحدود ہیں۔ اور جن کا یہاں پر تصور کرنا بھی کسی کے لیے ممکن نہیں۔ سو یہ بھی اس رب رحیم و کریم کے بےمثال اور لامتناہی کرم کا ایک نمونہ اور ثبوت ہے پس جنت اور اس کی نعمتیں عدل کی بناء پر نہیں بلکہ اس کے فضل وکرم کے طور پر بخشی جائیں گی۔ فسبحانہ مآاعظم شانہ وما اکرم انعامہ۔ سوروزجزاء میں ہر انسان اپنے عمل کا بہتر سے بہتر اور عمدہ سے عمدہ صلہ وبدلہ پائے گا کیونکہ یہ جزاء انسان کو اس ذات اقدس واعلیٰ کی طرف سے ملے گی جس کے کرم واحسان کی نہ کوئی حد ہے نہ انتہاء۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ اللہ ! ہم سے عدل کا نہیں فضل کا معاملہ فرمانا۔ کیونکہ عدل کے ترازو میں تلنے کے لیے ہمارے پاس کچھ بھی نہیں۔ بس تیرے فضل وکرم کی امید اور اسی کا آسراوسہارا ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے فضل وکرم اور انعام سے نوازنا کہ تیری تو شان ہی فضل وکرم کرنے اور انعام واحسان سے نوازنے کی شان ہے۔ تبارکت وتعالیت۔
Top