Tafseer-e-Madani - At-Tawba : 46
وَ لَوْ اَرَادُوا الْخُرُوْجَ لَاَعَدُّوْا لَهٗ عُدَّةً وَّ لٰكِنْ كَرِهَ اللّٰهُ انْۢبِعَاثَهُمْ فَثَبَّطَهُمْ وَ قِیْلَ اقْعُدُوْا مَعَ الْقٰعِدِیْنَ
وَلَوْ : اور اگر اَرَادُوا : وہ ارادہ کرتے الْخُرُوْجَ : نکلنے کا لَاَعَدُّوْا : ضرور تیار کرتے لَهٗ : اس کے لیے عُدَّةً : کچھ سامان وَّلٰكِنْ : اور لیکن كَرِهَ : ناپسند کیا اللّٰهُ : اللہ انْۢبِعَاثَهُمْ : ان کا اٹھنا فَثَبَّطَهُمْ : سو ان کو روک دیا وَقِيْلَ : اور کہا گیا اقْعُدُوْا : بیٹھ جاؤ مَعَ : ساتھ الْقٰعِدِيْنَ : بیٹھنے والے
اور اگر واقعی ان کا نکلنے کا ارادہ ہوتا تو یہ اس کے لئے کچھ نہ کچھ سامان تو ضرور تیار کرتے لیکن اللہ کو اٹھنا پسند نہ تھا تو اس نے بٹھا دیا ان (کے دلوں) کو، اور کہہ دیا گیا (ان سے تکوینی طور پر) کہ بیٹھے رہو تم بیٹھنے والے (محروم) لوگوں کے ساتھ،
102 فساد نیت محرومی کی جڑ بنیاد ۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اس نے ان کو بٹھا دیا ان کی اس بدنیتی اور خبث باطن کی بناء پر، جس کے نتیجے میں یہ لوگ اس کار خیر میں حصہ لینے کے قابل ہی نہ رہے۔ ان کے دل بیٹھ گئے۔ اور یہ ایسے عظیم الشان اجرو ثواب سے محروم ہوگئے ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو اس سے معلوم ہوا کہ نیت کا فساد محرومی کی جڑ بنیاد ہے اور حسن نیت توفیق کی اصل و اساس۔ جیسا کہ فرمایا گیا " نِیَّۃُ الْمُؤْمِنِ خَیْرٌ مِّنْ عَمَلِہٖ " ۔ فَوَفِّقْنَا یَا رَبَّنَا لِمَا تُحِبُّ وَتَرْضٰی یَا مَنْ لَّاحَدَّ لِجُوْدِہٖ وَلا نِہَایَۃَ لِکَرَمِہٖ واِحْسَانِہٖ ۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ اگر ان لوگوں کے اندر جہاد کے لیے اٹھنے کا ارادہ ہوتا تو یہ اس کے لیے کچھ نہ کچھ تیاری کرتے۔ پھر ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے توفیق بھی مل جاتی لیکن ان کے اندر تو جہاد کے لیے کوئی ارادہ ہی سرے سے موجود نہیں تھا۔ اس لیے یہ جہاد کیلیے نکلنے کی سعادت و توفیق سے محروم ہوگئے کہ اللہ کا دستور اور اس کی سنت یہی ہے کہ جو لوگ نیکی کمانے کے لیے اپنے ارادہ کو حرکت میں نہیں لاتے ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے توفیق نہیں ملتی ۔ والعیاذ باللہ - 103 بدنیتی کی ایک نقد سزا محرومی ۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ان سے کہ دیا گیا یعنی تکوینی طور پر کہ تم بیٹھ رہو بیٹھ رہنے والوں کے ساتھ۔ یعنی بچوں، بوڑھوں اور عورتوں و معذوروں کے ساتھ۔ کہ اپنی بدنیتیوں اور دوں ہمتیوں کے باعث کہ تم اس لائق ہو ہی نہیں کہ جہاد فی سبیل اللہ کے شرف سے مشرف ہوسکو جو کہ دارین کی سعادتوں کا ضامن و کفیل ہے۔ سو یہ بدنیتی اور سوئِ باطن کی ایک نقد سزا ہے جو انسان کو اس طرح کی محرومی کی شکل میں ملتی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو یہ توفیق خداوندی کے باب میں ایک سنت الہی کا ذکر وبیان ہے کہ جو لوگ کسی چیز کو دل سے نہیں چاہتے اور اس کا ارادہ نہیں کرتے تو ان کو اس سے محروم کردیا جاتا ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ " تثبیط " کے معنی کسی کو کسی کام سے روک دینے اور ہٹا دینے کے آتے ہیں۔
Top