Madarik-ut-Tanzil - Al-Baqara : 88
وَ قَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْفٌ١ؕ بَلْ لَّعَنَهُمُ اللّٰهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِیْلًا مَّا یُؤْمِنُوْنَ
وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا قُلُوْبُنَا : ہمارے دل غُلْفٌ : پردہ میں بَلْ : بلکہ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ : اللہ کی لعنت بِكُفْرِهِمْ : ان کے کفر کے سبب فَقَلِیْلًا : سو تھوڑے ہیں مَا يُؤْمِنُوْنَ : جو ایمان لاتے ہیں
اور کہتے ہیں ہمارے دل پردے میں ہیں (نہیں) بلکہ خدا نے ان کے کفر کے سبب ان پر لعنت کر رکھی ہے پس یہ تھوڑے ہی پر ایمان لاتے ہیں
غلف کی تفسیر : وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْفٌ : ( اور کہا ہمارے دل غلافوں میں ہیں) غلْف جمع اغلاف ہے وہ دل ایسے انداز سے پیدا کیے گئے ہیں کہ جن کو کئی پردوں نے ڈھانپ رکھا ہے۔ جو محمد ﷺ لے کر آئے۔ وہ ان تک نہیں پہنچتا ہے۔ اور نہ اس کو وہ سمجھتے ہیں یہ لفظ اغلف سے استعارہ کے طور پر استعمال ہوا ہے اغلف بےختنہ کو کہتے ہیں۔ بَلْ لَّعَنَھُمُ اللّٰہُ بِکُفْرِھِمْ : (بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت کی ان کے کفر کے سبب) اللہ تعالیٰ نے تردید فرمائی کہ ان کے دل اس طرح نہیں بنے جس طرح وہ کہتے ہیں۔ بلکہ وہ تو فطرت پر پیدا کیے گئے۔ اور ان میں حق کو قبول کرنے کی صلاحیت رکھی گئی۔ بیشک ان کو تو ان کے کفر وزیغ کی وجہ سے مسترد کیا گیا۔ قلیل کا مفہوم : فَقَلِیْلًا مَّایُؤْمِنُوْنَ : (بہت تھوڑے ہیں جو ایمان لاتے ہیں) نحو : قلیلًا یہ مصدر محذوف کی صفت ہے یعنی ایمانا قلیلا یؤمنون۔ وہ تھوڑا ایمان لاتے ہیں۔ ما زائدہ ہے۔ نمبر 1: اور قلیل ایمان سے مراد کتاب کے بعض حصے پر ایمان ہے۔ نمبر 2: قلیل سے ان کے ایمان کی نفی مراد ہے۔ قراءت : غُلْفٌ یہ غُلُفٌ کی تخفیف ہے اور اس طرح بھی پڑھا گیا ہے۔ یہ جمع غلاف ہے مطلب یہ ہوا کہ ہمارے دل علوم کے برتن ہیں۔ اس لیے ہم دوسروں کے علم سے بےنیاز ہیں۔ نمبر 2: اگر تمہارا لایا ہوا صحیح ہوتا تو اسے ہم قبول کرلیتے۔
Top