Madarik-ut-Tanzil - Al-Muminoon : 109
اِنَّهٗ كَانَ فَرِیْقٌ مِّنْ عِبَادِیْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَ ارْحَمْنَا وَ اَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَۚۖ
اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھا فَرِيْقٌ : ایک گروہ مِّنْ عِبَادِيْ : میرے بندوں کا يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے تھے رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے فَاغْفِرْ لَنَا : سو ہمیں بخشدے وَارْحَمْنَا : اور ہم پر رحم فرما وَاَنْتَ : اور تو خَيْرُ : بہترین الرّٰحِمِيْنَ : رحم کرنے والے
میرے بندوں میں ایک گروہ تھا جو دعا کیا کرتا تھا کہ اے ہمارے پروردگار ! ہم ایمان لائے تو تو ہم کو بخشدے اور ہم پر رحم کر اور تو سب سے بہتر رحم کرنے والا ہے
نیکوں سے تمسخر کا نتیجہ : 109، 110: اِنَّہٗ (بیشک معاملہ اور شان یہ ہے) یہ ضمیر شان ہے : کَانَ فَرِیْقٌ مِّنْ عِبَادِیْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اٰمَنَّا فَاغْفِرْلَنَا وَارْحَمْنَا وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰحمِیْنَ فَاتَّخَذْ تُمُوْھُمْ سِخْرِیًّا (کہ میرے بندوں کی ایک جماعت تھی جو کہا کرتے تھے اے ہمارے رب ہم ایمان لائے پس تو ہم کو بخش دے اور ہم پر رحم فرما اور تو سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے پس تم نے انکامذاق اڑایا) نحو : سِخْرِیًّا یہ مفعول ثانی ہے ( باتوں میں مذاق اڑانا، استہزاء کرنا جب سین کے کسرہ سے ہو کذا قال الفراء) قراءت : سِخْرِیًّا مدنی، حمزہ، علی نے پڑھا ( کسی کو غلام بنانا اور تحقیر کرنا) دراصل یہ دونوں مصدر ہیں السخر اور السخر۔ البتہ یا ؔ ئے نسبت لگ جانے سے معنی میں مبالغہ زیادہ ہوجاتا ہے۔ ایک قول یہ صحابہ ؓ ہیں۔ دوسرا قول خصوصاً اصحاب صفہ مراد ہیں۔ مطلب یہ ہے تم نے ان کا مذاق اڑایا اور ان کے ساتھ تمسخر نے تمہیں ہر چیز سے بیخبر کردیا۔ حَتّٰی اَنْسَوْکُمْ (یہاں تک کہ اس بات نے تمہیں میری یاد بھلا دی) ایمان والوں کو ہنسی کے مشغلہ نے ذِکْرِیْ (میری یاد کو تم نے چھوڑ دیا۔ ) مطلب یہ ہے کہ ان میں مشغولیت میری یاد کے بھلانے کا سبب بنی۔ وَکُنْتُمْ مِّنْھُمْ تَضْحَکُوْنَ (تم ان سے ہنسی کیا کرتے تھے)
Top