Madarik-ut-Tanzil - Al-Muminoon : 99
حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِۙ
حَتّيٰٓ : یہانتک کہ اِذَا جَآءَ : جب آئے اَحَدَهُمُ : ان میں کسی کو الْمَوْتُ : موت قَالَ : کہتا ہے رَبِّ : اے میرے رب ارْجِعُوْنِ : مجھے واپس بھیج دے
(یہ لوگ اسی طرح غفلت میں رہیں گے) یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آجائے گی تو کہے گا اے پروردگار ! مجھے پھر (دنیا میں) واپس بھیج دے
قیامت کے وقت حسرت و ندامت کا کلمہ : 99: حَتّٰی اِذَا جَآ ئَ اَحَدَھُمُ الْمَوْتُ (یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے سر پر موت آکھڑی ہوتی ہے) نمبر 1۔ یہ یصفون سے متعلق ہے۔ ای لا یزالون یشرکون الی وقت مجئی الموت کہ وہ شرک پر جمے رہیں یہاں تک کہ ان پر موت آئے۔ نمبر 2۔ وہ اس میں برے تذکرہ پر اس وقت تک قائم رہیں گے درمیان میں جملہ معترضہ ہے اور ان سے چشم پوشی کی تاکید کیلئے لایا گیا ہے اس حال میں کہ اللہ تعالیٰ سے شیطان کے خلاف مدد مانگتا رہے تاکہ وہ کہیں ان کو خوابوں میں نہ اتار دے اور ان سے بدلہ لینے پر نہ ابھارے۔ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِ (کہتا ہے اے میرے رب تو مجھے دنیا میں واپس کر دے) یعنی واپس لوٹادو مجھے دنیا کی طرف۔ ارجعواؔ جمع کا صیغہ اللہ تعالیٰ کی ذات کیلئے بطور تعظیم لایا گیا ہے جیسا کہ بادشاہوں سے تعظیمی الفاظ سے خطاب ہوتا ہے۔
Top