Madarik-ut-Tanzil - Ash-Shu'araa : 207
مَاۤ اَغْنٰى عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یُمَتَّعُوْنَؕ
مَآ اَغْنٰى : کیا کام ٓئے گا عَنْهُمْ : ان کے مَّا : جو (جس سے) كَانُوْا يُمَتَّعُوْنَ : وہ فائدہ اٹھاتے تھے
تو جو فائدے یہ اٹھاتے رہے ہیں ان کے کس کام آئیں گے ؟
عذاب آنے پر طویل عمر کا فائدہ نہ ہوگا : 207: مَآ اَغْنٰی عَنْہُمْ مَّا کَانُوْا یُمَتَّعُوْنَ (ان کا یہ نفع اٹھانا ان کو کچھ بھی فائدہ نہ دے گا) ما کانوا یمتعون بہٖ فی تلک السنین جن چیزوں سے وہ ان سالوں میں تمتع کرتے رہے۔ مطلب یہ ہے وہ جلدی عذاب تو اس وجہ سے مانگتے ہیں کہ ان کا اعتقاد یہ ہے کہ عذاب واقع نہ ہوگا اور نہ ان کو پہنچے گا اور وہ طویل عمریں سلامتی وامن سے گزارتے رہیں گے اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ افبعذا بنا یستعجلون (کیا وہ ہمارے عذاب کے جلد پہنچنے کے خواستگار ہیں) استہزاء و تمسخر کے طور پر اور لمبی امیدوں پر بھروسہ کرتے ہوئے پھر بطور فرض والتسلیم فرمایا اگر مان بھی لیں کہ معاملہ ان کے اعتقاد کے مطابق بھی ہو اور وہ طویل عمر پالیں اور متاع دنیا سے خوب تمتع حاصل بھی کرلیں۔ پھر اگر ان کو وعید آن پہنچے تو پھر ان کی گزری طویل عمریں اور خوشحال زندگی کیا فائدہ پہنچا سکے گی۔ قول میمون بن مہران : ان کی ملاقات حسن سے طواف کے دوران ہوئی اور ان کے دل میں ان کی ملاقات کی تمنا بھی تھی۔ تو میمون نے کہا مجھے نصیحت فرما دیں حسن (رح) نے یہ آیت پڑھی۔ اس پر میمون نے کہا تو نے بڑا بلیغ وعظ کیا ہے۔ عمر بن عبدالعزیز (رح) سے منقول ہے کہ جب فیصلہ کیلئے بیٹھتے تو اس آیت کو تلاوت فرماتے۔
Top