Madarik-ut-Tanzil - An-Nisaa : 140
وَ قَدْ نَزَّلَ عَلَیْكُمْ فِی الْكِتٰبِ اَنْ اِذَا سَمِعْتُمْ اٰیٰتِ اللّٰهِ یُكْفَرُ بِهَا وَ یُسْتَهْزَاُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوْا مَعَهُمْ حَتّٰى یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِهٖۤ١ۖ٘ اِنَّكُمْ اِذًا مِّثْلُهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ جَامِعُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ الْكٰفِرِیْنَ فِیْ جَهَنَّمَ جَمِیْعَاۙ
وَقَدْ : اور تحقیق نَزَّلَ : اتار چکا عَلَيْكُمْ : تم پر فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں اَنْ : یہ کہ اِذَا سَمِعْتُمْ : جب تم سنو اٰيٰتِ اللّٰهِ : اللہ کی آیتیں يُكْفَرُ : انکار کیا جاتا ہے بِھَا : اس کا وَيُسْتَهْزَاُ : مذاق اڑایا جاتا ہے بِھَا : اس کا فَلَا تَقْعُدُوْا : تو نہ بیٹھو مَعَھُمْ : ان کے ساتھ حَتّٰي : یہانتک کہ يَخُوْضُوْا : وہ مشغول ہوں فِيْ : میں حَدِيْثٍ : بات غَيْرِهٖٓ : اس کے سوا اِنَّكُمْ : یقیناً تم اِذًا : اس صورت میں مِّثْلُھُمْ : ان جیسے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ جَامِعُ : جمع کرنے والا الْمُنٰفِقِيْنَ : منافق (جمع) وَالْكٰفِرِيْنَ : اور کافر (جمع) فِيْ جَهَنَّمَ : جہنم میں جَمِيْعَۨا : تمام
اور خدا نے تم (مومنوں) پر اپنی کتاب میں (یہ حکم) نازل فرمایا ہے کہ جب تم (کہیں) سنو کہ خدا کی آیتوں سے انکار ہو رہا ہے اور ان کی ہنسی اڑائی جاتی ہے تو جب تک وہ لوگ اور باتیں (نہ) کرنے لگیں ان کے پاس مت بیٹھو ورنہ تم بھی انہیں جیسے ہوجاؤ گے کچھ شک نہیں کہ خدا منافقوں اور کافروں (سب کو) دوزخ میں اکٹھا کرنے والا ہے
آیت 140 : وَقَدْ نَزَّلَ عَلَیْکُمْ (تحقیق اس نے تم پر اتارا) فِی الْکِتَابِ (یعنی قرآن میں) قراءت : نَزَّلَ نون کے فتحہ کے ساتھ عاصم نے پڑھا۔ جبکہ دوسروں نے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ مجالست منافقین کی ممانعت : اَنْ اِذَا سَمِعْتُمْ ٰایٰتِ اللّٰہِ یُکْفَرُبِہَا وَیُسْتَہْزَاُ بِہَا فَلَا تَقْعُدُوْا مَعَہُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِہٖ (کہ جب تم اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ کفر اور استہزاء ہوتا ہوا دیکھو تو ان کے ساتھ مت بیٹھو یہاں تک کہ وہ کسی دوسری بات میں مصروف ہوجائیں) یعنی یہاں تک کہ کفر و استہزاء قرآن کے علاوہ کوئی اور بات شروع کردیں۔ الخوضشروع ہونا۔ اَنْ یہ مخففہ من المثقلہ ہے۔ تقدیر عبارت یہ ہے۔ انہ اذا سمعتم یعنی تم پر اتارا کہ معاملہ اس طرح ہے۔ والشان سے مراد وہ حالت جو جملہ سے شرط جزاء سمیت معلوم ہو رہی ہے۔ نحو : اَن اپنے اس موقعہ کے لحاظ سے نُزِّلَ سے موضع رفع میں ہے۔ یا پھر نَزّل کی وجہ سے موضع نصب میں ہے اور المنزل علیہ۔ کتاب میں وہ آیات ہیں جو مکہ میں اتریں جیسا یہ آیت : وَاِذَا رَاَ یْتَ الَّذِیْنَ یَخُوْضُوْنَ فِیْٓ ٰایٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْہُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِہٖ [ الانعام : 68] اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مشرکین مکہ قرآن مجید کا تذکرہ اپنی مجالس میں کر کے اس کا مذاق اڑاتے۔ مسلمانوں کو ان کی مجالست سے روک دیا گیا۔ جب تک کہ وہ اس میں مصروف رہیں۔ مدینہ میں منافقین نے بھی مشرکین مکہ کا طرز عمل اپنا لیا۔ اس لئے مسلمانوں کو ان کے ساتھ بیٹھنے سے روک دیا گیا۔ جیسا کہ ان کو مشرکین مکہ کی ہم مجلسی سے روکا گیا۔ گناہ کے اعتبار سے تمثیل : اِنَّکُمْ اِذًا مِّثْلُہُمْ (بیشک تم اس وقت ان کی طرح ہو) گناہ میں جبکہ تم ان کے ساتھ ٹھہرے رہے۔ یہاں ہر اعتبار سے تمثیل مقصود نہیں۔ منافقین کا ایسی باتوں میں مصروف ہونا کفر ہے۔ اور مسلمانوں کا ان کے ساتھ بیٹھنا معصیت ہے۔ اِنَّ اللّٰہَ جَامِعُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَالْکٰفِرِیْنَ فِیْ جَہَنَّمَ جَمَِیْعًا (بیشک اللہ تعالیٰ منافقین اور کفار کو جہنم میں جمع کرنے والے ہیں) کیونکہ وہ کفر و استہزاء میں دونوں جمع ہیں۔
Top