Madarik-ut-Tanzil - An-Nahl : 18
قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِكُمْ غَیْرَ الْحَقِّ وَ لَا تَتَّبِعُوْۤا اَهْوَآءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ وَ اَضَلُّوْا كَثِیْرًا وَّ ضَلُّوْا عَنْ سَوَآءِ السَّبِیْلِ۠   ۧ
قُلْ : کہ دیں يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ : اے اہل کتاب لَا تَغْلُوْا : غلو (مبالغہ) نہ کرو فِيْ : میں دِيْنِكُمْ : اپنا دین غَيْرَ الْحَقِّ : ناحق وَ : اور لَا تَتَّبِعُوْٓا : نہ پیروی کرو اَهْوَآءَ : خواہشات قَوْمٍ : وہ لوگ قَدْ ضَلُّوْا : گمراہ ہوچکے مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل وَاَضَلُّوْا : اور انہوں نے گمراہ کیا كَثِيْرًا : بہت سے وَّضَلُّوْا : اور بھٹک گئے عَنْ : سے سَوَآءِ : سیدھا السَّبِيْلِ : راستہ
کہو کہ اے اہل کتاب ! اپنے دین (کی بات) میں ناحق مبالغہ نہ کرو ' اور ایسے لوگوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلو جو (خود بھی) پہلے گمراہ ہوئے اور اور بھی اکثروں کو گمراہ کر گئے اور سیدھے راستے سے بھٹک گئے۔
اہل کتاب کو غلو کی ممانعت : آیت 77 : قُلْ یٰٓـاَھْلَ الْکِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ ۔ (اے اہل کتاب اپنے دین میں غلو نہ کرو) غلو حد سے تجاوز کو کہتے ہیں۔ نصاریٰ کا غلو یہ تھا کہ ان کو ان کے مرتبے سے اٹھا کر الوہیت کے تخت پر بٹھا دیا تھا۔ اور یہود کا غلو یہ تھا کہ ان کو استحقاق نبوت سے ہی گرا دیا۔ غَیْرَ الْحَقِّیہ مصدر محذوف کی صفت ہے تقدیر عبارت یہ ہے غلوًا غیر الحق یعنی باطل غلو۔ وَلَا تَتَّبِعُوْٓا اَہْوَآئَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُیعنی تمہارے وہ اسلاف اور وہ مقتداء جو بعثت نبوی ﷺ سے پہلے گمراہی پر تھے۔ وَاَضَلُّوْا کَثِیْرًاان کو جو ان کا ساتھ دینے والے تھے۔ وَّضَلُّوْا گمراہ ہوئے جبکہ رسول اللہ ﷺ مبعوث ہوئے۔ عَنْ سَوَآئِ السَّبِیْلِجبکہ انہوں نے حضور ( علیہ السلام) کو جھٹلا دیا۔ آپ ﷺ سے حسد کیا اور آپ ﷺ کے خلاف بغاوت پر اتر آئے۔
Top