Madarik-ut-Tanzil - Al-Hadid : 18
اِنَّ الْمُصَّدِّقِیْنَ وَ الْمُصَّدِّقٰتِ وَ اَقْرَضُوا اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا یُّضٰعَفُ لَهُمْ وَ لَهُمْ اَجْرٌ كَرِیْمٌ
اِنَّ الْمُصَّدِّقِيْنَ : بیشک صدقہ کرنے والے مرد وَالْمُصَّدِّقٰتِ : اور صدقہ کرنے والی عورتیں وَاَقْرَضُوا اللّٰهَ : اور انہوں نے قرض دیا اللہ کو قَرْضًا حَسَنًا : قرض حسنہ يُّضٰعَفُ : دوگنا کیا جائے گا لَهُمْ : ان کے لیے وَلَهُمْ : اور ان کے لیے اَجْرٌ كَرِيْمٌ : اجر ہے عزت والا
جو لوگ خیرات کرنے والے ہیں مرد بھی اور عورتیں بھی اور خدا کو (نیت) نیک (اور خلوص سے) قرض دیتے ہیں انکو دو چند ادا کیا جائے گا اور ان کے لئے عزت کا صلہ ہے
18 : اِنَّ الْمُصَّدِّقِیْنَ وَالْمُصَّدِّقٰتِ (بلاشبہ صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں۔ ) قراءت : مصدّقات دال کی صرف تشدید سے مکی اور ابو عمرو نے پڑھا ہے۔ یہ مصدقین اسم فاعل کا صیغہ ہے باب صدق اس سے مراد وہ لوگ ہیں۔ جنہوں نے اللہ اور رسول کی تصدیق کی یعنی مؤمن۔ باقی قراء نے مُصّدّقین دونوں کی تشدید سے پڑھا ہے۔ اور یہ اسم فاعل تصدق سے ہے۔ پھر تاء کو صادؔ میں ادغام کردیا اور اس کو اصل پر بھی پڑھا گیا ہے۔ وَاَقْرَضُوا اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا (اور وہ خلوص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو قرض دیتے رہے ہیں) اس کا عطف مصدقین میں معنی فعل پر ہے۔ کیونکہ المصدقین کی لام الذین کے معنی میں ہے۔ اور اسم فاعل، فعل کے معنی میں ہے اور وہ فعل اصدَّقُوا ہے۔ گویا اس طرح کہا گیا۔ ان الذین اصدقوا و اقرضوا۔ قرض حسن (1) عمدہ شئی (2) خوشدلی سے خرچ کرے (3) اور نیت بھی درست ہو اور (4) خرچ بھی مستحق پر کی جائے۔ یُّضٰعَفُ لَھُمْ وَلَہُمْ اَجْرٌ کَرِیْمٌ (وہ صدقہ ان کے لئے بڑھا دیا جائے گا اور ان کے لئے پسندیدہ اجر ہوگا ) قراءت : مکی و شامی نے یُضَعَّفُ پڑھا ہے۔ اجر کریم سے مراد جنت ہے۔
Top