Madarik-ut-Tanzil - Al-A'raaf : 190
فَلَمَّاۤ اٰتٰىهُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَهٗ شُرَكَآءَ فِیْمَاۤ اٰتٰىهُمَا١ۚ فَتَعٰلَى اللّٰهُ عَمَّا یُشْرِكُوْنَ
فَلَمَّآ : پھر جب اٰتٰىهُمَا : اس نے دیا انہیں صَالِحًا : صالح بچہ جَعَلَا : ان دونوں نے ٹھہرائے لَهٗ : اس کے شُرَكَآءَ : شریک فِيْمَآ : اس میں جو اٰتٰىهُمَا : انہیں دیا فَتَعٰلَى : سو برتر اللّٰهُ : اللہ عَمَّا : اس سے جو يُشْرِكُوْنَ : وہ شریک کرتے ہیں
جب وہ ان کو صحیح وسالم (بچہ) دیتا ہے تو اس (بچے) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اسکا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں خدا (کا رتبہ) اس سے بلند ہے۔
فرد سے جنس کی طرف التفات : آیت 190: فَلَمَّآ ٰاتَاھُمَا صَالِحًا (پھر جب اللہ نے ان کو صحیح سالم اولاد دے دی) ان کو دے دیا جو انہوں نے تندرست وسالم بچہ مانگا۔ جَعَلَالَہٗ شُرَکَآ ئَ (تو دونوں اللہ کا شریک قرار دینے لگے) یعنی ان کی اولاد نے اس کے لیے شریک بنائے۔ : گویا مضاف محذوف ہے۔ اور مضاف الیہ کو اس کا قائم مقام بنادیا۔ فِیْمَآ ٰاتٰہُمَا (اللہ کی دی ہوئی چیز میں) یعنی ان کی اولاد کو جو دیا اس کی دلیل آیت کا یہ حصہ۔ فَتَعٰلَی اللّٰہُ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ (پس اللہ تعالیٰ پاک ہے ان کے شرک سے) ہے اس لئے کہ ضمیر جمع کی لائی گی اور اس لیے بھی کہ آدم و حوا (علیہما السلام) شرک سے بری ہیں۔۔ اور اشرکہم فیھا ٰاتاھم اللّٰہ سے مراد اولاد کے نام عبدالعزیٰ ، عبدمناف، عبد شمس وغیرہ رکھ لیے حالانکہ اس کی بجائے عبداللہ عبدالرحمن، عبدالرحیم ہونے چاہیے تھے۔ نمبر 2۔ یہ خطاب قریش کو ہے جو عہد رسول اللہ ﷺ میں تھے وہ اور آل قصی ہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ وہ ذات جس نے ایک نفس (قصی) سے پیدا کیا اور اس کی جنس سے عربی قریشی بیوی اس کو دی تاکہ اس کو سکون حاصل ہو۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو مطلوبہ صحیح سالم بیٹا عنایت کردیا تو اس اولاد میں اللہ تعالیٰ کا شریک بنانے لگے۔ اپنی ساری اولاد کے نام مشرکانہ رکھ دیئے۔ عبدالعزیٰ ، عبدمناف، عبد قصی، عبدالدار۔ اَ یُشْرِکُوْنَ میں ضمیر ان دونوں کی طرف راجع ہے کیونکہ ان دونوں کے پیچھے ان کی اولاد نے شرک میں ان کی اتباع کی۔ قراءت : شِرکًا مدنی وابو بکر نے پڑھا ہے یعنی ذوی شرکٍ اور وہ شرکاء ہیں۔
Top