Madarik-ut-Tanzil - At-Tawba : 72
لَوْ خَرَجُوْا فِیْكُمْ مَّا زَادُوْكُمْ اِلَّا خَبَالًا وَّ لَاۡاَوْضَعُوْا خِلٰلَكُمْ یَبْغُوْنَكُمُ الْفِتْنَةَ١ۚ وَ فِیْكُمْ سَمّٰعُوْنَ لَهُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِالظّٰلِمِیْنَ
لَوْ : اگر خَرَجُوْا : وہ نکلتے فِيْكُمْ : تم میں مَّا : نہ زَادُوْكُمْ : تمہیں بڑھاتے اِلَّا : مگر (سوائے) خَبَالًا : خرابی وَّ : اور لَا۟اَوْضَعُوْا : دوڑے پھرتے خِلٰلَكُمْ : تمہارے درمیان يَبْغُوْنَكُمُ : تمہارے لیے چاہتے ہیں الْفِتْنَةَ : بگاڑ وَفِيْكُمْ : اور تم میں سَمّٰعُوْنَ : سننے والے (جاسوس) لَهُمْ : ان کے وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : خوب جانتا ہے بِالظّٰلِمِيْنَ : ظالموں کو
اگر وہ تم میں (شامل ہو کر) نکل بھی کھڑے ہوتے تو تمہارے حق میں شرارت کرتے اور تم میں فساد ڈلوانے کی غرض سے دوڑے دوڑے پھرتے۔ اور تم میں انکے جاسوس بھی ہیں۔ اور خدا ظالموں کو خوب جانتا ہے۔
منافقین کے نکلنے میں فتنہ پردازی کا نقصان ہے : آیت 47: لَوْخَرَجُوْا فِیْکُمْ مَّا زَادُوْکُمْ (اگر وہ لوگ تمہارے ساتھ شامل ہوجاتے تو نہ اضافہ کرتے) تمہارے ساتھ نکل کر اِلَّا خَبَالًا (مگر شرو فساد) نحو : نمبر 1 یہ استثناء متصل ہے۔ کیونکہ معنی یہ ہے۔ وہ اور کسی چیز میں اضافہ نہ کرتے سوائے فساد کے۔ نمبر 2۔ استثناء منقطع یہ ہے کہ مستثنیٰ اور مستثنیٰ منہ کی جنس الگ ہو جیسا کہتے ہیں ما زادوکم خیرًا الا خبالًا وہ تمہاری بھلائی میں اضافہ نہ کریں گے مگر فساد کا۔ اس کلام میں مستثنیٰ منہ مذکور نہیں ہے۔ جب مذکور نہ ہو۔ تو اس وقت استثناء کسی بھی چیز سے ہوتا ہے۔ پس استثناء متصل ہے۔ کیونکہ خبال اس کا بعض حصہ ہے۔ وَّلَا اَوْضَعُوْا خِلٰلَکُمْ (تو وہ تمہارے درمیان دوڑے دوڑے پھرتے) وہ تمہارے درمیان لڑائی جھگڑے اور چغل خوری کی کوشش کرتے اور باہمی معاملات کو بگاڑتے۔ کہا جاتا ہے وضع البعیر و ضعًا جبکہ اونٹ تیز چلے اور اوضعتہ انا مطلب یہ ہے کہ تمہارے درمیان اپنی سواریاں دوڑاتے اور اس سے مراد چغل خوری میں تیزی کرنا ہے۔ کیونکہ سوار پیدل سے زیادہ تیز ہوتا ہے۔ رسم الخط : ولاَ اوضعوا الف زائدہ کے ساتھ۔ عربی خط سے قبل فتحہ کو الف کی صورت میں لکھا جاتا تھا اور عربی رسم الخط نزول قرآن کے قریبی زمانہ میں ایجاد ہوا۔ اور طبائع میں اس الف کا اثر باقی تھا۔ پس انہوں نے ہمزہ کو الف کی صورت میں لکھ دیا۔ اور دوسرے الف سے اس کو فتحہ دیا اور اس کی دوسری نظیر اَوْلَاَ اذْبَحَنَّہٗ ( النمل : پ/21) ہے۔ یَبْغُوْنَـکُمُ (تمہارے درمیان) یہ اوضعوا کی ضمیر سے حال ہے۔ الْفِتْنَۃَ (فتنہ پردازی کی فکر میں) وہ خواہش مند ہیں کہ تمہیں فتنے میں مبتلا کریں اس طرح کہ تمہارے درمیان اختلاف ڈالیں اور غزوہ کے متعلق تمہاری نیات میں بگاڑو فساد پیدا کردیں۔ وَفِیْکُمْ سَمّٰعُوْنَ لَھُمْ (اور تم میں ان کے کچھ جاسوس موجود ہیں) جاسوس ہیں جو تمہاری باتیں سنکر ان کو منتقل کرتے ہیں۔ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌم بِالظّٰلِمِیْنَ (اور اللہ تعالیٰ ان ظالموں کو خوب سمجھے گا) مراد منافقین کو۔
Top