Al-Qurtubi - At-Tawba : 47
لَوْ خَرَجُوْا فِیْكُمْ مَّا زَادُوْكُمْ اِلَّا خَبَالًا وَّ لَاۡاَوْضَعُوْا خِلٰلَكُمْ یَبْغُوْنَكُمُ الْفِتْنَةَ١ۚ وَ فِیْكُمْ سَمّٰعُوْنَ لَهُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِالظّٰلِمِیْنَ
لَوْ : اگر خَرَجُوْا : وہ نکلتے فِيْكُمْ : تم میں مَّا : نہ زَادُوْكُمْ : تمہیں بڑھاتے اِلَّا : مگر (سوائے) خَبَالًا : خرابی وَّ : اور لَا۟اَوْضَعُوْا : دوڑے پھرتے خِلٰلَكُمْ : تمہارے درمیان يَبْغُوْنَكُمُ : تمہارے لیے چاہتے ہیں الْفِتْنَةَ : بگاڑ وَفِيْكُمْ : اور تم میں سَمّٰعُوْنَ : سننے والے (جاسوس) لَهُمْ : ان کے وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : خوب جانتا ہے بِالظّٰلِمِيْنَ : ظالموں کو
اگر وہ تم میں (شامل ہو کر) نکل بھی کھڑے ہوتے تو تمہارے حق میں شرارت کرتے اور تم میں فساد ڈلوانے کی غرض سے دوڑے دوڑے پھرتے۔ اور تم میں انکے جاسوس بھی ہیں۔ اور خدا ظالموں کو خوب جانتا ہے۔
قولہ تعالیٰ : لو خرجوا فیکم ما زادو کم الا خبالا یہ مومنوں کو تسلی دی جارہی ہے اس بارے میں کہ منافق ان سے پیچھے رہ گئے ہیں۔ اور الخبال سے مراد فساد برپا کرنا ‘ چغل خوری کرنا ‘ اختلاف پیدا کرنا اور جھوٹی خبریں اڑانا ہے۔ اور یہ استثنا منقطع ہے ‘ ای مازادوکم قوۃ ولکن طلبوا الخبال (یعنی وہ تمہاری قوت اور طاقت میں اضافہ نہ کرتے بلکہ وہ فساد اور اختلاف پیدا کرتے) اور یہ بھی کہا گیا ہے : اس کا معنی ہے وہ تمہارے لیے اس میں اضافہ نہ کرتے سوائے فساد کے جس بارے میں وہ رائے کے اعتبار سے ڈانوال ڈول ہیں۔ تو اس صورت میں یہ استثنا منقطع نہ ہوگا۔ لایزیدوئکم فیما یترددون (فیہ) من الرأی الا خبالا۔ قولہ تعالیٰ ولا اوضعوا خللکم اس کا معنی ہے کہ وہ بڑی تگ و دو اور محنت کے ساتھ تمہارے درمیان فساد برپا کرنے اور نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے۔ راجز نے کہا ہے : یا لیتنی فیھا جذع أغب فیھا وأضع کہا جاتا ہے : وضع البعیہ ‘ جب اونٹ دوڑ نے لگے یضع وضعا ووضوعاجب چال زیادہ تیزہو۔ اور أوضعتہ اس کا معنی ہے میں نے اسے دوڑنے پر ابھارا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : الایضاع سے مراد ایسی چال ہے جو دوڑ کی چال کی مثل ہو۔ اور الخلل کا معنی ہے دوچیزوں کے درمیان شگاف کا ہونا ‘ اس کی جمع الخلال ہے ‘ مراد وہ شگاف ہیں جو صفوں کے درمیان ہوتے ہیں ‘ یعنی وہ فساد برپا کرکے اور چغل خوری کے ذریعے تمہارے درمیان خلل اور دراڑیں ڈالنے کی کوشش کرتے۔ یبغو نکم الفتنۃ یہ مفعول ثانی ہے۔ اور اس کا معنی ہے وہ تمہارے لیے فتنہ تلاش کرتے ‘ یعنی فساد برپا کرکے اور (فساد پر) اکسا کر۔ اور کہا جاتا ہے : ابغیتہ کذا میں نے اس کی طلب اور تلاش میں اس کی مدد کی اور بغیتہ کذا میں نے اسے اس کے لیے تلاش کیا۔ اور کہا گیا ہے کہ یہاں فتنہ سے مراد شرک ہے۔ وفیکم سمعون لھم اور تم میں ان کے جاسوس ہیں جو ان کی طرف تمہاری خبریں پہنچاتے ہیں۔ حضرت قتادہ (رح) نے کہا ہے : اور تم میں وہ لوگ ہیں جو ان کی بات قبول کرتے ہیں اور ان کی اطاعت و پیروی کرتے ہیں۔ نحاس نے کہا ہے : پہلا قول زیادہ اولیٰ ہے ‘ کیونکہ دونوں معنوں میں سے غالب معنی یہ ہے کہ سماع کا معنی ہے وہ کلام کو سنتا ہے۔ اور اسی کی مثل سماعون للکذب بھی ہے اور دوسرا قول اس میں فقط سامع کہا جاسکتا ہے ‘ جیسا کہ قائل۔
Top