Ruh-ul-Quran - Al-Anfaal : 72
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ الَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّ نَصَرُوْۤا اُولٰٓئِكَ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ١ؕ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یُهَاجِرُوْا مَا لَكُمْ مِّنْ وَّلَایَتِهِمْ مِّنْ شَیْءٍ حَتّٰى یُهَاجِرُوْا١ۚ وَ اِنِ اسْتَنْصَرُوْكُمْ فِی الدِّیْنِ فَعَلَیْكُمُ النَّصْرُ اِلَّا عَلٰى قَوْمٍۭ بَیْنَكُمْ وَ بَیْنَهُمْ مِّیْثَاقٌ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَهَاجَرُوْا : اور انہوں نے ہجرت کی وَجٰهَدُوْا : اور جہاد کیا بِاَمْوَالِهِمْ : اپنے مالوں سے وَاَنْفُسِهِمْ : اور اپنی جانیں فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اٰوَوْا : ٹھکانہ دیا وَّنَصَرُوْٓا : اور مدد کی اُولٰٓئِكَ : وہی لوگ بَعْضُهُمْ : ان کے بعض اَوْلِيَآءُ : رفیق بَعْضٍ : بعض (دوسرے) وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَلَمْ يُهَاجِرُوْا : اور انہوں نے ہجرت نہ کی مَا لَكُمْ : تمہیں نہیں مِّنْ : سے وَّلَايَتِهِمْ : ان کی رفاقت مِّنْ شَيْءٍ : کچھ شے (سروکار) حَتّٰي : یہانتک کہ يُهَاجِرُوْا : وہ ہجرت کریں وَاِنِ : اوراگر اسْتَنْصَرُوْكُمْ : وہ تم سے مدد مانگیں فِي الدِّيْنِ : دین میں فَعَلَيْكُمُ : تو تم پر (لازم ہے) النَّصْرُ : مدد اِلَّا : مگر عَلٰي : پر (خلاف) قَوْمٍ : وہ قوم بَيْنَكُمْ : تمہارے درمیان وَبَيْنَهُمْ : اور ان کے درمیان مِّيْثَاقٌ : معاہدہ وَاللّٰهُ : اور اللہ بِمَا تَعْمَلُوْنَ : جو تم کرتے ہو بَصِيْرٌ : دیکھنے والا
بیشک جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے ہجرت کی اور جہاد کیا اپنی جان و مال سے اللہ کی راہ میں اور وہ لوگ جنھوں نے پناہ دی اور مدد کی یہی لوگ باہم دگر ایک دوسرے کے ولی ہیں۔ رہے وہ لوگ جو ایمان تو لائے لیکن انھوں نے ہجرت نہیں کی تمہارا ان سے کوئی رشتہ ولایت نہیں۔ یہاں تک کہ وہ ہجرت کریں اور اگر وہ مدد طلب کریں تم سے دین کے معاملے میں تو تم پر مدد واجب ہے مگر یہ کہ یہ مدد کسی ایسی قوم کے مقابلے میں ہو جن کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہو اور اللہ جو کچھ تم کرتے ہو اس کو دیکھ رہا ہے۔
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَھَاجَرُوْا وَجٰھَدُوْابِاَمْوَالِھِمْ وَاَنْفُسِھِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ اٰوَوْاوَّنَصَرُوْآ اُولٰٓئِکَ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍط وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یُھَاجِرُوْا مَالَکُمْ مِّنْ وَّلَایَتِھِمْ مِّنْ شَیْئٍ حَتّٰی یُھَاجِرُوْا ج وَاِنِ اسْتَنْصَرُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ فَعَلَیْکُمُ النَّصْرُ اِلَّا عَلٰی قَوْمٍ م بَیْنَکُمْ وَبَیْنَھُمْ مِّیْثَاقٌ ط وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ۔ ( الانفال : 72 ) (بےشک جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے ہجرت کی اور جہاد کیا اپنی جان ومال سے اللہ کی راہ میں اور وہ لوگ جنھوں نے پناہ دی اور مدد کی یہی لوگ باہم دگر ایک دوسرے کے ولی ہیں۔ رہے وہ لوگ جو ایمان تو لائے لیکن انھوں نے ہجرت نہیں کی تمہارا ان سے کوئی رشتہ ٔ ولایت نہیں یہاں تک کہ وہ ہجرت کریں اور اگر وہ مدد طلب کریں تم سے دین کے معاملے میں تو تم پر مدد واجب ہے مگر یہ کہ یہ مدد کسی ایسی قوم کے مقابلے میں ہو جن کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہو اور اللہ جو کچھ تم کرتے ہو اس کو دیکھ رہا ہے۔ ) اسلام میں اجتماعی زندگی کی اہمیت اور اس کی اساسات پیشِ نظر آیات کریمہ سے پیشتر آیات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے سامنے یہ بات کھول کر رکھ دی ہے کہ تم نے ہدایت کا جو راستہ اختیار کیا ہے اور دنیا کو جس نئی روشنی کی طرف بلانے کے لیے اٹھے ہو اس کے نتیجے میں راتوں کے مسافر اور گمراہیوں کو زندہ رکھنے والے تمہارے لیے جینا مشکل کردیں گے۔ ان کے ہاتھوں سے جنگل کے درندوں کو کوئی خطرہ نہیں۔ چور اور ڈاکو ان کے لیے قابل برداشت ہیں۔ لیکن جو لوگ انھیں کسی طرح گوارا نہیں وہ تم ہو کیونکہ وہ تمہاری زندگی میں اپنی موت دیکھتے ہیں۔ عنقریب تمہیں ایک بڑی کشمکش اور ایک بڑے تصادم سے سابقہ پیش آنے والا ہے۔ اس کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ تم اپنی شیرازہ بندی کی بنیادوں کو اچھی طرح سمجھ لو اور جو چیزیں تمہارے وجود اور تمہاری بقا کی ضامن ہیں انھیں اچھی طرح ذہن نشین کرلو اور اپنی اجتماعی زندگی کو انھیں اساسات پر اٹھائوجن پر تمہاری اجتماعی زندگی کی عمارت استوار ہوسکتی ہے۔ اسلام جس ماحول میں آیا اس میں اجتماعی زندگی کی بنیاد اور باہمی توافق اور تخالف کی اساس قبیلے کی عصبیت پر قائم تھی۔ خاندان کی مختلف شاخیں پھیل کر جب ایک قبیلے کی شکل اختیار کرلیتی تھیں تو وہ اجتماعی زندگی کا حصار بن جاتا تھا۔ قبیلے کا ہر فرد قبیلے کی عصبیت کو اپنی قوت اور طاقت سمجھتا تھا اور قبیلہ اپنے ایک ایک فرد کی حفاظت ونصرت اپنا فریضہ خیال کرتا تھا۔ قبیلے کے کسی فرد سے باہر کے کسی آدمی کی لڑائی ہوجاتی تو قبیلے کے فرد کے لیے صرف قبیلے کا نام لے کر دہائی دینا اور مدد کے لیے پکارنا کافی تھا۔ قبیلے کا کوئی فرد یہ جاننا ضروری نہیں سمجھتا تھا کہ لڑائی میں حق پر کون ہے اور ناحق پر کون۔ انھیں تو صرف اتنا معلوم تھا کہ جب ہمارے قبیلے کا کوئی آدمی قبیلے کے نام پر ہمیں مدد کے لیے پکارتا ہے تو ہمیں اس کی مددصرف اس لیے کرنی ہے کہ وہ ہمارے قبیلے کا آدمی ہے۔ قطع نظر اس سے کہ وہ غلطی پر ہے یا صواب پر۔ قبیلے کا غلام بھی قبیلے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے اتنا اہم ہوجاتا تھا کہ دوسرے قبیلے کا سردار بھی اس کی مخالفت مول نہیں لے سکتا تھا ورنہ اسے قبیلے کی دشمنی سے واسطہ پڑتا تھا۔ توافق و تخالف اور تعاضد و تناصر کی یہ بنیاد اس قدر پختہ اور ہمہ گیر تھی کہ حلیف قبائل بھی اس میں شریک ہوجاتے تھے اور پھر اسی بنیاد پر سالوں تک لڑائیاں چلتی تھیں اور ہزاروں لوگ تہِ تیغ ہوتے تھے۔ اسلام نے سب سے زیادہ زور اسی بنیاد کو بدلنے پر صرف کیا۔ کوئی بھی اجتماعی نظم اس بات کا انکار نہیں کرسکتا کہ اجتماعی زندگی کے لیے باہمی تعاون کی کوئی مشترکہ بنیاد ہونی چاہیے۔ جس کی وجہ سے اجتماعی زندگی میں شریک ایک ایک فرد حرکت میں آجائے۔ لیکن اصل سوال یہ تھا کہ وہ بنیاد کیا ہو ؟ عربوں نے قبیلے کی وحدت کو اجتماعیت کی بنیاد بنایا، اسی کی عصبیت کو اس کی مضبوطی کے لیے استعمال کیا لیکن اس کا نتیجہ جو ہر صاحب بصیرت پر روشن تھا وہ یہ تھا کہ اس کے نتیجے میں قبائل کی آویزش اور دشمنی بجائے کم ہونے کے روزافزوں تھی۔ جس کی وجہ سے پورا عرب دہکتا ہوا جہنم بن چکا تھا۔ اسلام نے اجتماعیت کی بنیاد کو تسلیم کیا لیکن قبیلے کی عصبیت کو صالح اجتماعیت کا دشمن قرار دیا۔ اس نے اجتماعیت کے لیے وہ بنیادیں فراہم کیں جس کی نتیجے میں نہ صرف قبیلے کی عصبیت ختم ہوئی اور انسان اس تنگ نائے سے نکلنے پر قادرہوا بلکہ عرب سے باہر دنیا نے رنگ ونسل اور جغرافیے کو جس طرح وحدت کا ذریعہ سمجھ رکھا تھا اس گمراہی کا بھی ازالہ فرمایا اور مسلمانوں پر نہایت کامیابی سے یہ راز آشکارا کیا کہ تم ایک ایسے دین کے داعی بن کر اٹھے ہو جو پوری نوع انسانی کی ضرورت ہے جس طرح اس کا محتاج عرب ہے اسی طرح عجم بھی ہے۔ جس طرح کالے اور سانولے اس سے فائدہ اٹھانے کے پابند ہیں اسی طرح گورے اور سرخ بھی اسی کی تعلیم کے محتاج ہیں۔ اگر تم اپنی پرانی بنیادوں کو نہیں توڑوگے اور قبیلے کے محدود ماحول سے نہیں نکلو گے تو دنیا کے دوسرے ملکوں اور انسانوں کے پورے قافلے میں تمہاری دعوت کیسے قبول کی جائے گی ؟ اور یہ بات بھی ان پر واضح کی کہ دنیائے کفر جب تمہارے خلاف متحد ہو کر تم پر حملہ آور ہوگی تو تم نے اگر وسیع تر بنیادوں پر اپنی صف بندی نہ کی تو ان کا مقابلہ کیسے کرسکوگے ؟ چناچہ ان ضرورتوں کے پیش نظرآیاتِ کریمہ میں ان اساسات کو واضح فرمایا جن پر مسلمانوں کی قومی وحدت استوار کی جاسکتی ہے۔ پانچ بنیادیں پیشِ نظر آیت کریمہ میں اسلامی اجتماعیت اور اسلامی وحدت کے لیے پانچ بنیادوں کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ 1 ایمان : ایمان چند بنیادی حقائق کا زبان سے اقرار کرنے، دل سے تصدیق کرنے اور اعضاء وجوارح سے اس کے مطابق عمل کرنے کا نام ہے۔ ایمان یقین کی وہ قوت ہے جس سے ایک عام آدمی کا رشتہ اپنے خالق ومالک سے قائم ہوجاتا ہے۔ وہ اس کی کبریائی کو اس طرح دل ونگاہ میں بٹھا لیتا ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت اس کی نظروں میں جچتی نہیں۔ دنیا کا کوئی نظریہ اس کے لیے قابل قبول نہیں رہتا کسی آستانے پر اس کا سر نہیں جھکتا اور کسی کے سامنے وہ دست سوال دراز نہیں کرتا۔ وہ زندگی کا ہر فیصلہ اس شریعت کے مطابق کرتا ہے جو اسے اپنے اللہ سے ملی ہے اور اس کی زندگی کے لیے عملی نمونہ وہ رسول گرامی ہے جسے اللہ نے انسانوں کے لیے ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا ہے۔ وہ اپنے ہر عمل سے پہلے یہ سوچتا ہے کہ جب اللہ کے روبرو حاضری ہوگی تو کیا میں اپنے عمل کا جواب دے سکوں گا یانھیں ؟ یہ زندگی دارالعمل ہے اس کی کامیابی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ یہ زندگی آنے والی زندگی کی تیاری میں صرف ہوجائے۔ جو شخص ان بنیادی حقائق کو تسلیم کرلیتا ہے وہ ایک نئی امت اور نئی اجتماعی قوت کا رکن بن جاتا ہے اس کا قبیلے کی عصبیت سے تعلق ٹوٹ جاتا ہے۔ وہ تعاضد و تناصر میں قبیلے کے اشتراک کو نہیں دیکھتا بلکہ ایمان کے اشتراک کو دیکھتا ہے۔ وہ اگر قریشی ہے تو اس کا ابو لہب اور ابوجہل سے کوئی رشتہ نہیں حالانکہ وہ اس کے خاندان کے لوگ ہیں۔ اس کا رشتہ بلال ( رض) سے ہے، صہیب ( رض) سے ہے یا ایسے ہی دوسرے لوگوں سے جو اللہ کے رسول کی دعوت پر ایمان لا چکے ہیں۔ بلال کالا کلوٹاسہی اور صہیب رومی غلام سہی، لیکن یہ اس نئی اجتماعیت کے افراد ہیں جن کی بنیاد ایمان پر ہے۔ اس اجتماعیت میں شریک لوگ نفع و ضرر کے احساسات میں ایک دوسرے کے شریک ہیں۔ وہ ہمیشہ ایک دوسرے کے لیے جیتے اور ایک دوسرے کے لیے مرتے ہیں۔ ان سب کے پیش نظراسی نئی بنیاد اور وحدت پر امت کے دائرے کو وسیع کرنا ہے۔ وہ شب وروز اسی دھن میں گزار تے ہیں کہ کس طرح ایک ایک شخص کو اس نئی وحدت میں شامل کیا جائے۔ جب مخالف قوت ان کا جینا مشکل کردیتی ہے اور ان کی دعوت کے راستے بند کردیتی ہے تو وہ اپنے اس مضبوط تعلق کو ثابت کرنے کے لیے ایک فیصلہ کرتے ہیں، جس سے اسلامی اجتماعیت کی دوسری بنیاد جنم لیتی ہے۔ 2 ہجرت : ہجرت درحقیقت ایمان کی قیمت ادا کرنا ہے اور یہ ثابت کرنا ہے کہ ہمارا وہ شہر جس میں ہمیں وجود ملا اور ہمارے وہ گھر جس میں ہم نے شب وروز گزارے اور ہمارے وہ بڑے جن کی شفقت کے سائے میں ہم پروان چڑھے اور ہمارے وہ بھائی اور ساتھی جن کے ساتھ کھیلتے ہوئے ہم جوان ہوئے۔ ہمارے مکانات، ہمارے باغات، ہمارے کاروباران میں سے کوئی چیز ایمان اور دین کا بدل نہیں ہوسکتی۔ اگر کفر کی طاقتیں ہمارے لیے ایمان کے ساتھ جینامشکل کررہی ہیں تو ہم ایسے شہر، ایسے تعلق دار اور ایسے ماحول کو اپنے دین پر قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔ چناچہ وہ محض اپنے ایمان کی حفاظت اور اسلامی ذمہ داریوں کی بجاآوری کے لیے اپنا وطن چھوڑدیتے ہیں۔ وہ دیس کی راحتوں پر اس پردیس کو ترجیح دیتے ہیں جس میں ان کی ایمانی زندگی سلامت ہو۔ چناچہ ایمانی زندگی کی حفاظت کے لیے وطن چھوڑدینا اور ایک ایک تعلق سے دستبردار ہوجانا ” ہجرت “ کہلاتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کے زمانے میں ہجرت بھی ایمان کی طرح فرض تھی۔ چناچہ جو لوگ ہجرت کرنے میں تأمل کرتے تھے ان کے ایمان کو بےاعتبار ٹھہرادیا جاتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایمان کوئی ساکت وجامد چیز نہیں۔ یہ عمل کی صورت میں اسلام بن جاتا ہے اور اسلام اللہ کے تمام احکام کی اطاعت کا نام ہے اور اللہ کے احکام آنحضرت ﷺ پر مسلسل نازل ہورہے تھے جنھیں آہستہ آہستہ پایہ تکمیل کو پہنچنا تھا۔ جو شخص ہجرت کرکے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں نہیں پہنچتا تھا وہ اسلامی احکام سے بہرہ ور نہیں ہوسکتا تھا۔ اس کی اسلامی زندگی بھی ادھوری رہتی اور اسلامی تربیت بھی نامکمل رہتی تھی اور دوسری یہ بات کہ مسلمان جس روشنی کو لے کر اٹھے تھے اس کا چراغ صرف ان کے اپنے گھروں ہی میں نہیں جلنا تھا بلکہ اس شمع کو ہر اس جگہ پہنچنا تھا جہاں کہیں انسان بستے تھے اور جہاں دھرتی پانی دیتی تھی۔ یہ ایک جانگسل کشمکش کا آغاز تھا جس میں حق و باطل کے قدم قدم پر معرکے تھے۔ اس لیے یہ بات انتہائی ناگزیر تھی کہ آنحضرت ﷺ کی صحبت میں زیادہ سے زیادہ ایسے افراد کا ہجوم ہوتا جن میں سے ایک ایک کے دل میں طوفان موجزن ہوتے۔ آئے دن جن کی تعداد میں اضافہ ہوتا تاکہ اہل حق کی اتنی بڑی قوت وجود میں آجائے جو کفر کے اجتماعی جتھوں کا مقابلہ کرسکے۔ ان ضرورتوں کے پیش نظر مسلمانوں پر لازم کردیا گیا کہ وہ جہاں کہیں بھی ایمان لائیں اپنا گھر اور وطن چھوڑ کر اللہ کے رسول کی خدمت میں مدینہ طیبہ ہجرت کرجائیں۔ ان دو بنیادوں نے ایک امت کی تشکیل و تعمیر میں بنیادی کردار ادا کیا۔ 3 پناہ دینا : مختلف علاقوں سے لوگ جب ہجرت کر کے مرکز اسلام میں پہنچیں گے تو سب سے پہلی ضرورت جو پہلے ہی دن پیش آئے گی وہ یہ ہے کہ کیا مرکز اسلام اور وہاں کے رہنے والے ان نئے آنے والے مہمانوں کے لیے پناہ گاہ بننے کے لیے بھی تیار ہیں یا نہیں کیونکہ کسی بھی ملک یا شہر پر مہاجرین کا ہجوم ایک ایسا مسئلہ ہے جو قوموں کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ کسی ملک میں حالات خراب ہوتے ہیں تو بعض دفعہ وہاں کے عوام پناہ کے لیے ہمسایہ ملک کا رخ کرتے ہیں اور ہمسایہ ملک کے لیے انھیں پناہ دینا اور ان کی ضروریات کا فراہم کرنا بعض دفعہ ایسا مسئلہ بن جاتا ہے کہ دوسرے ملکوں سے اپیلیں کرنی پڑتی ہیں۔ لیکن جب معاملہ ایک ایسی امت کا ہو جو نئی بنیادوں پر وجود میں آرہی ہے اور پرانی جاہلیت اور پرانا سماج انھیں کسی طرح گوارا کرنے کو تیار نہیں تو ایسی صورت میں ان کی مدد کے لیے اپیل بھی بےمعنی ہو کر رہ جاتی ہے۔ اس ہجرت کا بوجھ تمام تر ان لوگوں کو اٹھانا پڑتا ہے جو پہلے سے ان کی نظریاتی زندگی سے وابستہ اور ایمانی توانائی سے آراستہ ہوں کیونکہ دوسرا کوئی شخص اس میں شریک ہونے کے لیے تیار نہیں ہوسکتا۔ اس لیے جس طرح ہجرت ایک مشکل معاملہ ہے اور اس کا فیصلہ وہی لوگ کرسکتے ہیں جو سوچ سمجھ سے اللہ سے وابستگی کا عہد کرچکے ہوں، اسی طرح انھیں پناہ دینے کا فیصلہ بھی آسان نہیں۔ اس کا ارادہ بھی وہی لوگ کرسکتے ہیں جو پوری دنیا سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔ 4 نصرت : مہاجرین کو صرف پناہ دینا کافی نہیں بلکہ ان کے لیے ضروریات کی فراہمی بھی ناگزیر ہے۔ ان کی رہائش کا بندوبست، ان کے کھانے پینے کا انتظام، ان کے کاروبار کی کوئی شکل و صورت، ان میں سے کوئی بات ایسی نہیں جسے نظرانداز کیا جاسکے یہی وہ چیز ہے جسے ” نصرت “ کہا گیا ہے۔ چناچہ جن لوگوں نے ہجرت کی اور مرکز اسلام کو اپنا وطن بنایا انھیں ” مہاجر “ کہا گیا اور جن لوگوں نے انھیں ٹھکانہ دیا اور نصرت کی انھیں ” انصار “ کے معزز لقب سے یاد کیا گیا۔ جس طرح مہاجرین نے ہجرت کی صعوبتیں اٹھاکر ایمان واخلاص کی نئی نئی جہتوں کو آشکارا کیا اسی طرح انصار نے نصرت و ایثار کی وہ مثالیں قائم کیں جنھیں چشم فلک نے کبھی نہ دیکھا تھا۔ انصار نے اپنے گھر مہاجرین کے لیے خالی کردیئے، اپنی زمینیں تقسیم کرنے کے لیے تیار ہوگئے، بعض لوگ تو اس حد تک سراپا ایثار بن گئے کہ ان میں سے کسی ایک کی اگر دو بیویاں تھیں تو اس نے اپنے مہاجر بھائی سے کہا کہ میں ایک بیوی کو طلاق دے دیتا ہوں تم اس سے نکاح کرلو۔ لیکن آنحضرت ﷺ نے اس کی اجازت نہیں دی۔ مہاجر اور انصار دونوں اسی عرب قوم کے افراد تھے جو اپنے قبیلے سے باہر کسی آدمی کے لیے کلمہ خیر کہنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے۔ ان کی ہمدردیاں اور محبتیں صرف اپنے قبیلے کے افراد تک محدود تھیں اور اب ان کی محبت اور نصرت کے لیے ایمان اور ہجرت کا حوالہ کافی تھا۔ اس تعلق نے ان کے درمیان ایک ایسے مضبوط رشتے کو وجود دیا جس کی وجہ سے باقی تمام رشتے ماند پڑگئے۔ اس مضبوط شیرازہ بندی اور مخلصانہ معنوی وحدت نے عزم و حوصلہ کی ایک ایسی قوت کو جنم دیاجس کے نتیجے میں وہ اپنے مال اور اپنی جانیں اللہ کے راستے میں قربان کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔ چناچہ یہ وہ جذبہ بےپناہ ہے جسے ” جہاد “ سے یاد کیا جاتا ہے۔ 5 جہاد : جہاد ایک جہدِ مسلسل کا نام ہے۔ جس میں نہ اپنی ذات پیش نظر ہوتی ہے نہ مال ومتاع کا حصول، نہ شہرت وناموری، نہ کسی ملک پر قبضہ کرنا، نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی، صرف ایک فکر ہوتی ہے کہ اللہ کے دین کی دعوت تمام نوع انسانی تک پہنچ جائے۔ جن قوتوں نے اس دعوت کا راستہ روک رکھا ہے اور وہ اس آب حیات کو دوسروں تک پہنچنے کی اجازت نہیں دیتے ان قوتوں سے ٹکرانا اور راستے سے ہٹانا جہاد کی ایک ضرورت بن جاتا ہے۔ مقصود صرف اللہ کی دعوت کو پہنچانا ہے اگر اس کے لیے راستے ہموار ہیں تو کوئی تصادم نہیں ہوتا۔ لیکن اگر تخت وتاج کے مالک اس دعوت کو اپنے تخت و تاج کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں تو پھر ان سے نبردآزما ہوجانا ضروری ہوجاتا ہے۔ بہرحال یہ پانچ بنیادیں ہیں جن پر ایک امت کی عمارت اٹھائی جاتی ہے۔ جن میں نظریاتی وحدت کی قوت بھی ہے اور اس راستے میں ہر چیز کو چھوڑدینے کی صلاحیت بھی اور اگر اس کے لیے اپنا مال ومتاع قربان کرنا پڑتا ہے تو اس کے لیے ایثار کی قوت بھی ہے۔ پھر یہ تمام معنوی قوتیں مل کر ایک ایسے لشکر میں بدل جاتی ہیں جو اللہ کے نام کی سربلندی اور اس کے دین کی بالادستی کے لیے بہ ہمہ وجود تیار رہتا ہے اور یہ لوگ آپس میں ایسا گہرا رشتہ رکھتے ہیں جس کی گہرائی خونی رشتے سے زیادہ ہے۔ ان میں صرف اخوت ہی قائم نہیں ہوتی بلکہ ان کے درمیان ایک ولایت کا رشتہ قائم ہوجاتا ہے جو اپنی وسعت میں اخوت کے رشتے سے بڑھ کر ہے۔ انھیں کے بارے میں فرمایا کہ یہ باہم دگر ایک دوسرے کے ولی ہیں۔ اسلامی اخوت کا رشتہ صرف ایمان سے وجود میں آتا ہے لیکن اسلامی ولایت کے لیے ہجرت اور نصرت ضروری ہیں اور جو لوگ ہجرت نہیں کرتے ان کے درمیان اسلامی اخوت تو ضرور باقی رہتی ہے بشرطیکہ ان کا اسلام سے مخلصانہ تعلق ہو لیکن ان میں ولایت کا قانونی رشتہ قائم نہیں ہوتا اس لیے یہاں فرمایا گیا کہ جو لوگ ہجرت پر آمادہ نہیں ہوتے تمہارے اور ان کے درمیان ولایت کا کوئی رشتہ نہیں۔ یعنی وہ رشتہ جو اسلامی حکومت اور اس کے زیر سایہ رہنے والوں کے درمیان ہوتا ہے جس کے نتیجے میں اسلامی حکومت اپنی رعایا کے ایک ایک فرد کے بنیادی حقوق کی ضامن ہوتی ہے اور اسلامی ریاست کے زیر اثر رہنے والے افراد میں سے ایک ایک فرد اپنی ریاست کا ہمدرد اور غمگسار ہوتا ہے وہ اس کے مفادات کو اپنے مفادات پر ترجیح دیتا ہے اور اسلامی ریاست اس کے مفادات کو اپنے مفادات سمجھتی ہے اور وہ کسی ممکن طریقے سے کسی طرف سے بھی اس کے مفادات کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دیتی۔ حضور ﷺ کا مشہور ارشاد ہے : (اگر خدانخواستہ میں ایک طرف کعبہ کو گرتا ہوا دیکھوں اور دوسری طرف مسلمان کا خون بہتا ہوا تو میں پہلے مسلمان کو بچانے کی فکر کروں گا کیونکہ مسلمان ریاست کو اس کا پاسبان بنایا گیا ہے۔ ) اس لیے حضرت عمر فاروق ( رض) نے فرمایا کہ : ( اگر فرات کے کنارے کوئی کتا بھوکا مرجائے تو مجھے اندیشہ ہے کہ قیامت کے دن مجھ سے اس کا سوال کیا جائے گا۔ ) اور جہاں تک مسلمانوں اور ان کے بچوں کا تعلق ہے اس کے لیے تو مسلمان خلفاء کی راتوں کی نیندیں اڑ جاتی تھیں۔ حضرت عمر فاروق ( رض) مدینہ سے باہر پڑائو ڈالنے والے قافلوں کی ضرورتوں کا جائزہ لینے کے لیے رات کو گشت فرماتے تھے اور جب کبھی معلوم ہو تاکہ ان کے بچے بھوکے ہیں تو خود اپنی کمر پر بوجھ لاد کر ان کی ضروریات پوری کرتے اور اس وقت انھیں چین آتا تھا جب ان کے بچے کھا پی کر خوشی سے کھیلنے لگتے تھے اور جب حضرت عمر فاروق کو یہ معلوم ہوا کہ بعض مائیں بچے کے وظیفے کی خاطر بچے کا قبل از وقت دودھ چھڑا دیتی ہیں تو صبح کی نماز آپ کے لیے پڑھانا مشکل ہوگیا گریہ وزاری کا آپ پر اس قدر غلبہ ہوا کہ باربار نماز میں چیخ نکل جاتی تھی۔ نماز کے ختم ہوتے ہی فرمایا ” عمر برباد ہوگیا نہ جانے کتنی مائوں نے بچے قبل از وقت دودھ چھڑا کر ہلاک کردیئے اس لیے میں حکم جاری کرتا ہوں کہ ہر بچہ کا وظیفہ پیدا ہوتے ہی لگا دیا جائے تاکہ کسی ماں کو قبل ازوقت دودھ چھڑانے کی ضرورت نہ پڑے “۔ یہی وہ ولایت کا رشتہ ہے جو حکومت اور رعیت کے درمیان ہے۔ جس کی وجہ سے دونوں ایک دوسرے کے پاسبان ہیں اور ایک دوسرے کے حقوق کے پاسبان ہیں اور یہ رشتہ ہجرت کے بعد قائم ہوتا ہے اس لیے اس آیت میں حکم دیا گیا کہ اگر کچھ مسلمان ہجرت نہیں کرتے اور دارالکفر میں رہنا ان کے لیے گوارا ہے تو مسلمانوں سے ان کا کوئی رشتہ ولایت نہیں جس کی وجہ سے مسلمان ان کے حقوق اور مفادات کی نگرانی کی ذمہ داری محسوس کریں کیونکہ ولایت کا لفظ عربی زبان میں (حمایت، نصرت، مددگاری، پشتیبانی، دوستی، قرابت، سرپرستی اور اس سے ملتے جلتے مفہومات) کے لیے بولا جاتا ہے اور اس آیت کے سیاق وسباق میں صریح طور پر اس سے مراد وہ رشتہ ہے جو ایک ریاست اپنے شہریوں سے اور شہریوں کا اپنی ریاست سے اور خود شہریوں کا آپس میں ہوتا ہے۔ پس یہ آیت دستوری اور سیاسی ولایت کو اسلامی ریاست کے ارضی حدود تک محدود کردیتی ہے۔ اس لیے آنحضرت ﷺ نے فرمایا : (میں کسی ایسے مسلمان کی حمایت اور حفاظت کا ذمہ دار نہیں ہوں جو مشرکین کے درمیان رہتاہو۔ ) معاہدے کا احترام ضروری ہے : وَاِنِ اسْتَنْصَرُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ فَعَلَیْکُمُ النَّصْرُ اور اگر وہ مسلمان جنھوں نے ہجرت نہیں کی تم سے مدد طلب کریں تو پھر تم پر مدد کرنا لازم ہے۔ یعنی وہ اس طرح کی شکایت کریں کہ جس شہر یا جس ملک میں وہ رہ رہے ہیں وہ اس لیے ان پر ظلم کررہے ہیں کہ وہ مسلمان کیوں ہیں۔ اس طرح انھیں مسلمان ہونے کی سزا دی جارہی ہے تو مسلمانوں کے لیے لاز م ہے کہ وہ جس طرح بھی ہوسکے۔ غیرمسلموں کے مظالم کو رکوائیں ورنہ یہ اندیشہ ہے کہ کافر انھیں دوبارہ کفر میں لے جائیں گے۔ ان کے ایمان کی حفاظت کے لیے ان کی مددضرور کی جائے لیکن اگر مدد ایسی قوم کے خلاف مانگی جارہی ہے جن کے اور مسلمانوں کے درمیان کوئی معاہدہ ہے۔ تو پھر معاہدے کی پابندی پہلے ضروری ہے کیونکہ مسلمان کسی حال میں بھی معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ معاہدے کی پابندی کرتے ہوئے کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جائے گا جو معاہدے کی روح کے خلاف ہو البتہ ! مسلمانوں کو بالکل بےسہارا بھی نہیں چھوڑاجائے گا کیونکہ انھوں نے دارالاسلام کی طرف ہجرت نہ کرکے خود اپنے آپ کو غیر محفوظ کرلیا ہے اس لیے مسلمان ایک خاص حد سے آگے ان کی مدد کرنے کے مکلف نہیں ہیں۔ البتہ ! سفارتی ذرائع سے اخلاقی اور سیاسی دبائو استعمال کرکے مسلمانوں کی کسی نہ کسی حدتک مدد ضرور ہونی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ حدیبیہ میں نبی کریم ﷺ قریش کے نمائندے کی طرف سے معاہدے کی یہ دفعہ جب قبول کرچکے کہ ” اگر کوئی شخص مکہ معظمہ سے مسلمان ہو کر مدینہ منورہ جائے گا تو مسلمان اسے واپس کرنے کے پابند ہوں گے “ تو اسی دوران ابو جندل ( رض) جو قریش کے نمائندہ کے بیٹے اور قریش کے خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ وہ اس حال میں مسلمانوں کے سامنے پہنچے کہ ان کے پائوں میں بیڑیاں اور ہاتھوں میں ہتھکڑیاں تھیں۔ وہ نہ جانے کس طرح بیڑیاں کھینچتے ہوئے حدیبیہ تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ ان کی ٹانگوں سے خون بہہ رہا تھا اور جسم پر تشدد کے آثار تھے۔ انھوں نے آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں کو اپنے زخم دکھاتے ہوئے درخواست کی کہ مجھے اس ظلم سے نجات دلائیں اور اپنے ساتھ مدینہ لے چلیں۔ قریش کے نمائندہ نے فوراً کہا کہ ہم یہ شق قبول کرچکے ہیں کہ اگر کوئی شخص مسلمان ہو کر مدینہ جائے گا تو مسلمان اسے واپس کرنے کے پابند ہوں گے۔ آپ اگر معاہدے کے پابند ہیں تو آپ اسے اپنے ساتھ نہیں لے جاسکتے۔ آنحضرت ﷺ نے ہرچند اصرار کیا کہ ابھی معاہدہ مکمل نہیں ہوا لیکن قریش کا نمائندہ کسی طرح ماننے پر آمادہ نہ ہوا۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ میں ذاتی طور پر تم سے درخواست کرتا ہوں کہ تم میری خاطر لڑکے کو میرے حوالے کردو لیکن اس نے صاف کہا کہ اگر آپ اسے لے جانے پر اصرار کریں گے تو میں معاہدہ توڑ دوں گا۔ چناچہ آپ نے معاہدہ کی پابندی کرتے ہوئے ابو جندل ( رض) کو واپس جانے کا حکم دیا اور ساتھ ہی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے کوئی نہ کوئی راستہ نکالے گا۔ اسی طرح ابو بصیر ( رض) مکہ سے بھاگ کر مدینہ پہنچ گئے اور ان کے پیچھے پیچھے قریش کے دو قاصد انھیں لینے کے لیے پہنچے آنحضرت ﷺ نے انھیں ان کے حوالے کیا اور ساتھ جانے کا حکم دے دیا۔ انھوں نے راستے میں موقع پاکر ایک کو قتل کردیا اور دوسرا بھاگ گیا اور پھر مدینے چلے آئے۔ دو میں سے جو شخص جان بچاکر بھاگا تھا، وہ بھی پیچھے پیچھے مدینہ جاپہنچا اور جاکر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں سارا واقعہ سنایا آپ نے ابوبصیر کو بلایاتو انھوں نے عرض کیا کہ حضور آپ معاہدے کی پابندی کرتے ہوئے مجھے ان کے حوالے کرچکے ہیں اب آپ پر کوئی ذمہ داری نہیں۔ لیکن حضور ﷺ نے فرمایا یہ شخص جنگ کی آگ بھڑکانے والا ہے۔ ابوبصیر ( رض) سمجھ گئے کہ حضور دوبارہ مجھے اس شخص کے ساتھ جانے کا حکم دیں گے۔ چناچہ وہ مدینہ سے نکلے اور ساحل سمندر پر جابیٹھے اور وہیں انھوں نے اپنا ٹھکانہ بنالیا۔ اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ وہ مسلمان جو دارالکفر میں رہتے ہوں اور ہجرت نہ کرسکے ہوں ان سے اس حد تک ہمدردی ہوسکتی ہے جس میں کسی معاہدے کی شکست کا خطرہ نہ ہو یا جنگ کی آگ بھڑکنے کا اندیشہ نہ ہو۔ لیکن بالکلیہ انھیں کافروں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ آخر میں فرمایا تم جو کچھ کررہے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔ اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں کہ تم مسلمانوں کی جتنی مدد کرسکتے تھے وہ بھی نہیں کررہے اور یا تم حدود سے بڑھ کر اس طرح مدد کررہے ہو کہ تمہیں معاہدے کی پابندی کا احساس نہیں رہا۔ یعنی دونوں پہلوئوں پر اللہ کی نگاہ ہے نہ معاہدے کو نقصان پہنچے اور نہ مسلمان نظر انداز ہوں۔
Top