Mafhoom-ul-Quran - Yunus : 7
اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا وَ رَضُوْا بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ اطْمَاَنُّوْا بِهَا وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنْ اٰیٰتِنَا غٰفِلُوْنَۙ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يَرْجُوْنَ : امید نہیں رکھتے لِقَآءَنَا : ہمارا ملنا وَرَضُوْا : اور وہ راضی ہوگئے بِالْحَيٰوةِ : زندگی پر الدُّنْيَا : دنیا وَاطْمَاَنُّوْا : اور وہ مطمئن ہوگئے بِهَا : اس پر وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ ھُمْ : وہ عَنْ : سے اٰيٰتِنَا : ہماری آیات غٰفِلُوْنَ : غافل (جمع)
جن لوگوں کو ہم سے ملنے کی توقع نہیں، دنیا کی زندگی سے خوش اور مطمئن ہو بیٹھے ہماری نشانیوں سے غافل ہو بیٹھے ہیں۔
اللہ کی آیات سے غافل اور ایمان والوں کا انجام تشریح : پچھلی آیات میں قدرت الٰہی کو بڑے واضح انداز میں پوری طرح کھول کھول کر بیان کردیا گیا ہے۔ اب یہاں ان لوگوں کا ذکر ہے جن میں ایمان کی روح پیدا نہیں ہوتی۔ کہنے کو تو مسلمان ہوتے ہیں مگر حقیقت میں روح اسلام سے دور ہوتے ہیں۔ دنیاوی زندگی کے عیش و آرام میں ایسے محو ہوجاتے ہیں کہ آخرت اور مرنے کو، اللہ کے سامنے جواب دینے کو بالکل بھول جاتے ہیں اور دنیا کی مصروفیات کو اپنے اوپر یوں طاری کرلیتے ہیں کہ دنیاوی مفاد یا مال کو نقصان سے بچانے کے لیے اگر کہیں جھوٹ بولنا، دھوکہ دینا، چوری کرنا، کسی کا حق مارنا، بددیانتی کرنا یا جھگڑا، فساد، قتل و غارت گری کرنی پڑے تو جو شخص موت اور آخرت کو بھولا ہوا ہے یہ سب کام بڑے آرام سکون اور خوب محنت مشقت اٹھا کر کرلیتا ہے اور یوں مسلمانوں کے دائرہ سے نکل جاتا ہے۔ صرف کلمہ پڑھ لیا ” اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ “ ” میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ “ اور اس کلمہ کی روح کو نہ سمجھا نہ اس پر عمل کیا تو یہ ایمان کیسا ؟ یہ تو صرف دھوکہ ہے اپنے ساتھ اور لوگوں کے ساتھ۔ اور اللہ کے ساتھ مسلمان ان تمام برائیوں سے بہت دور ہوتا ہے جو اوپر بیان کی گئی ہیں ایسا شخص نہ تو حقوق العباد ادا کرسکتا ہے نہ حقوق اللہ اور نہ ہی اپنے حقوق ادا کرتا ہے۔ اپنے حقوق یہ ہیں کہ اس دنیا میں کوئی ایسا کام نہ کیا جائے جو خود اس کے اعمال نامے کو خراب کر دے کیونکہ انسان نے ضرور مرنا ہے اللہ کے سامنے ضرور دوبارہ زندہ ہو کر پیش ہونا ہے اور اپنے دنیا میں کیے ہوئے اعمال کا بدلہ ضرور ملنا ہے۔ جب اس دنیا میں ایک شخص روح ایمان سے خالی ہو کر صرف اس دنیا کے مفادات کے لیے زندگی گزارے گا تو بھلا وہ آخرت میں دردناک عذاب، عذاب جہنم سے کیسے بچ سکے گا۔ بلکہ کلمہ گو بد اعمال کو تو زیادہ ہی سزا مل سکتی ہے۔ تو ایسے ہی غافل، لاپرواہ اور دنیا میں مست رہنے والے لوگوں کو خبردار کیا جا رہا ہے کہ ہوشیار ہوجائیں ایسے لوگوں کو آخرت میں جہنم میں ڈالا جائے گا۔ اور پھر ساتھ ہی ان لوگوں کا بھی ذکر کیا جا رہا ہے جو روح اسلام کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں جو اسلام کے اصولوں کو زندگی کے ہر موڑ پر یاد رکھتے ہیں اللہ اور رسول کے بتائے ہوئے احکامات پر سختی سے عمل کرتے ہیں جو یاد رکھتے ہیں کہ اپنا اعمال نامہ صاف ستھرا رکھنا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ مر کر اللہ کے سامنے پیش ہو کر سزا یا جزا ضرور ملے گی تو بھلا ایسا انسان کوئی برائی کیوں کرے گا۔ اس کو دنیاوی فائدہ گناہ پر مجبور کر ہی نہیں سکتا کیونکہ اس کی روح، دل و دماغ، ہاتھ پائوں سب کچھ اللہ اور رسول ﷺ کے فرمانبردار ہیں۔ تو ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ بار بار بشارت دیتا ہے کہ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنی رضا مندی سے مرنے کے بعد ایسی جگہ منتقل کرے گا کہ جس کی تعریف اللہ تعالیٰ ان الفاظ میں کرتا ہے۔ ” ان کو ان کا رب ایمان سے ہدایت کرے گا، نعمت بھری جنتوں میں جن کے نیچے نہریں بہیں گی اور وہاں ان کی صدا یہ ہوگی کہ ” پاک ہے تو اے اللہ “ ان کی دعا یہ ہوگی ” سلامتی ہو “ اور ان کی ہر بات کا خاتمہ اس پر ہوگا کہ ” سب تعریف اللہ رب العلمین ہی کے لیے ہے۔ “ کیونکہ وہ دنیا میں بھی اسی اصول پر قائم تھے کہ ہر کام کے شروع میں بسم اللہ سبحانک اللہم اور آخر میں الحمدللہ رب العلمین بولتے تھے تو جنت میں بھی اللہ کی حمد و ثنا اور شکر سے غافل نہ ہوں گے۔ قرطبی نے احکام القرآن میں فرمایا کہ ” کھانے پینے اور تمام کاموں میں سنت اہل جنت کے اس عمل کے مطابق یہ ہے کہ بسم اللہ سے شروع کرے اور الحمدللہ پر ختم کرے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو یہ پسند ہے کہ بندہ جب کوئی چیز کھائے پیے تو بسم اللہ سے شروع کرے اور فارغ ہو کر الحمد للہ کہے۔ “ ( معارف القرآن مفتی محمد شفیع جلد چہارم 513 ) سوچنے کی بات ہے کہ پھر ایسی زندگی کیوں نہ گزاری جائے جو دنیا بھی جنت اور آخرت بھی جنت بنائے۔ اللہ ہمیں اس کی توفیق دے۔ آمین۔
Top