Mafhoom-ul-Quran - Ibrahim : 5
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰیٰتِنَاۤ اَنْ اَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ١ۙ۬ وَ ذَكِّرْهُمْ بِاَیّٰىمِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ
وَ : اور لَقَدْاَرْسَلْنَا : البتہ ہم نے بھیجا مُوْسٰى : موسیٰ بِاٰيٰتِنَآ : اپنی نشانیوں کے ساتھ اَنْ : کہ اَخْرِجْ : تو نکال قَوْمَكَ : اپنی قوم مِنَ الظُّلُمٰتِ : اندھیروں سے اِلَى النُّوْرِ : نور کی طرف وَذَكِّرْهُمْ : اور یاد دلا انہیں بِاَيّٰىمِ اللّٰهِ : اللہ کے دن اِنَّ : بیشک فِيْ : میں ذٰلِكَ : اس لَاٰيٰتٍ : البتہ نشانیاں لِّكُلِّ صَبَّارٍ : ہر صبر کرنیوالے کے لیے شَكُوْرٍ : شکر کرنے والے
اور ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا کہ اپنی قوم کو تاریکی سے نکال کر روشنی میں لے جاؤ اور ان کو اللہ کے دن یاد دلائو اور اس میں ان لوگوں کے لیے جو صابر و شاکر ہیں ( اللہ کی قدرت کی) نشانیاں ہیں۔
سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم کی مثال تشریح : ان آیات میں مسلمان کے عقائد اللہ کی حاکمیت، یعنی توحید، آخرت اور کائنات کے وہ راز جو ابھی تک ہمارے بڑے سائنسدان بھی حل نہیں کرسکے ان کی طرف بڑے معنی خیز اشارات موجود ہیں جن کو بنیاد بنا کر زمین کے آغاز ساخت، عمل اور پھر انجام کے بارے میں کچھ کچھ معلومات مفکرین نے حاصل کی ہیں۔ یہی تمام مسائل ہیں جن کا ذکر قرآن پاک میں بار بار کیا گیا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ قرآن عربی زبان میں اور عرب میں ہی کیوں نازل ہوا۔ تو اس کا جواب دیا جا چکا ہے مزید جواب یہ ہے کہ اول تو انسان کی ہدایت کے لیے انسان ہی بہترین ہوسکتا ہے کوئی فرشتہ یا جن مناسب نہیں ہوسکتا کیونکہ جب تک ہدایت کا راستہ بتانے والاقوم کی زندگی، رہن، سہن عادات، زبان اور زندگی کے تمام مسائل سے واقف نہ ہو وہ ان کی مکمل طور پر رہنمائی نہیں کرسکتا اسی لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے تو عرب کو منتخب کیا، پھر ان کی زبان کو اور پھر ان ہی میں سے بہترین متقی صالح اور خوش اخلاق و خوش کردار انسان حضرت محمد ﷺ کو پیغمبر منتخب کیا۔ اللہ تو مدبر ہے اس کی تدبیروں کا ہم احاطہ نہیں کرسکتے مگر پھر بھی سمجھ یہ آتا ہے کہ عربی زبان تمام زبانوں سے زیادہ جامع، پر اثر اور شیریں زبان ہے۔ چند جملوں میں بڑے بڑے مسائل ادا ہوجاتے ہیں۔ دوسرا، عرب، ایشیا اور افریقہ کے وسط میں واقعہ ہے۔ یورپ کا جنوبی حصہ جو اس وقت زیادہ آباد حصہ تھا وہ عرب کے انتہائی قریب ہے۔ اگرچہ عربوں میں دنیا کی تمام اخلاقی برائیاں، مذہبی بےراہروی اور جہالت و خونخواری کے تمام برے اوصاف موجود تھے مگر کچھ خصلتیں ان کی قابل تعریف بھی تھیں، مثلاً بہادر، نڈر، مہمان نواز، عہد کے پکے، جفا کش، محنتی، سادگی پسند اور فن تقریر میں ان کا کوئی مقابلہ نہ کرسکتا تھا۔ عربی زبان اس وقت بھی دنیا کی مکمل ترین زبان تھی اور آج بھی ہے۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے بعد ان میں مذہبی لحاظ سے بالکل غلط رجحان پیدا ہوچکا تھا۔ اسی لیے ان لوگوں کی بنیادی صفات کو زنگ، گردو غبار اور کفر و شرک کی غلاظت سے پاک صاف کر کے ایمان کی روشنی اور چمک دینے کے لیے انہی میں سے حضرت محمد ﷺ کو چن لیا گیا کہ وہ ان لوگوں کو گناہ کے اندھیروں سے نکال کر ایمان و توحید کی روشنی کی طرف لے آئیں۔ آپ ﷺ نے اس کام میں جو جو مشقتیں، تکلیفیں اور پریشانیاں اٹھائیں وہ آپ سب کو معلوم ہوچکی ہیں اور یہ مشقتیں ہر پیغمبر کو اٹھانی پڑی تھیں۔ مگر کیونکہ وہ اللہ کے مقبول ترین اور بہترین تعلیمات دینے والے تھے۔ اللہ نے ہر وقت ہر صورت اور لحاظ سے ان کی مدد کی اور ان کو کامیاب و کامران کیا۔ جن لوگوں نے ان کو تنگ کیا اور توحید کی تعلیمات کو چھوڑ کر شرک و کفر کی راہیں اختیار کیں تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو بچا لیا مگر ان لوگوں کو تباہ و برباد کر کے زمین کو پاک صاف کردیا اور پھر وہاں نئی مخلوقات کو آباد کردیا یہاں مشہور قوموں کی مثال دی گئی ہے۔ یعنی قوم نوح، عاد، ثمود اور دوسری اقوام۔ اسلام کے بنیادی اصول یہ ہیں کہ اللہ ایک ہے محمد ﷺ آخری نبی ہیں قرآن اللہ کی کتاب ہے جس میں آخرت کا ذکر خاص طور سے کیا گیا ہے۔ حقوق العباد، حقوق اللہ اور تمام اوصاف حمیدہ کو اپنانے سے عرب جیسی وحشی قوم دنیا کی سردار قوم بن گئی۔ آخرت کا تصور اور اس پر یقین انسان کو سدھارنے کے لیے بہترین ذریعہ ہے۔ جب ایک شخص کو پتہ ہوتا ہے کہ اس کا امتحان ہوگا اور اللہ کی نگہبانی اتنی سخت ہے کہ دھوکہ دہی چیٹنگ کا کوئی امکان ہی نہیں تو پھر کون ایسا بیوقوف ہے کہ جو اعمال و کردار اور اعتقادات میں کمی بیشی کرے گا۔ پھر امتحان کے بعد رزلٹ بھی یقینی اور بالکل انصاف کے ساتھ دیا جائے گا۔ مسلمان کو معلوم ہے کہ پکے اور سچے مسلمان کو جنت الفرودس میں جگہ ملے گی مرنے کے بعد زندگی اس کے اعمال کے مطابق ملے گی۔ کفر و شرک کرنے والے کو دوزخ میں جگہ ملے گی جہاں پینے کو پیپ، کھانے کو تھوہر (براکھانا) اور رہنے کو آگ کا بدترین ٹھکانا ملے گا۔ یہ سب انسان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہوگا۔ اچھے اعمال اپنے ہی کام آتے ہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی بندے کے اعمال کا اللہ کو نہ کوئی نقصان ہوتا ہے اور نہ فائدہ۔ اللہ کے قوانین پر عمل کر کے مسلمان بہترین قوم بن گئی۔ مگر پھر آہستہ آہستہ مسلمانوں نے دین میں سستی شروع کردی اور پھر جب اٹھارھویں صدی کے وسط میں بنگال میں انگریز حکومت قائم ہوئی تو انہوں نے بھی مسلمانوں کے کردار کی تعریف میں یوں کہا کہ مسلمان چوری نہیں کرتا، جھوٹ نہیں بولتا اور جھوٹی گواہی نہیں دیتا۔ یعنی مر مٹنے کے بعد بھی کچھ اخلاقی اچھائیاں مسلمان میں موجود رہیں، جن کو انگریزوں نے ختم کرنے کے لیے ہر طریقہ استعمال کیا۔ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ اور آخرت پر اعتقاد ہمارے قانون، معاشی نظام، تہذیب و تمدن اسلامی تعلیمات کو ہر صورت ختم کرنے کی کوشش کی گئی اور یوں مسلمان شیطان کی حکومت میں آکر اپنی تمام خوبیوں کو بدیوں میں بدل بیٹھا اور اس نے یہ بھی نہ سوچا کہ قیامت کے دن کوئی بھی سفارش اور کوئی بھی لیڈر کام نہ آئے گا۔ صرف اپنا اعمال نامہ اپنا عقیدہ اور اپنا ایمان ہی کام آئے گا۔ جبکہ کفر و شرک اور برے اعمال کو اللہ تعالیٰ نے راکھ سے تشبیہ دی ہے کہ ہوا کے جھونکے سے اڑ جاتی ہے اور اس کا مالک بالکل خالی ہاتھ رہ جاتا ہے۔ قرآن پاک میں اکثر بات کی وضاحت مثال دے کر کی جاتی ہے تاکہ انسان کو سمجھنے میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔ یہ تو تمام دنیا کے لیے اور دنیا کے ختم ہونے تک کے لیے راہ ہدایت کا سرچشمہ قرآن پاک انسان کو دیا گیا ہے۔ اگلی آیات میں قرآنی تعلیمات کو مزید مثال دے کر سمجھایا گیا ہے۔
Top