Mafhoom-ul-Quran - Al-Muminoon : 99
حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِۙ
حَتّيٰٓ : یہانتک کہ اِذَا جَآءَ : جب آئے اَحَدَهُمُ : ان میں کسی کو الْمَوْتُ : موت قَالَ : کہتا ہے رَبِّ : اے میرے رب ارْجِعُوْنِ : مجھے واپس بھیج دے
یہ لوگ اسی طرح غفلت میں رہیں گے) یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آجائے گی تو کہے گا ” اے اللہ مجھے پھر دنیا میں واپس بھیج دے۔
کیا مرنے کے بعد دوبارہ دنیا میں آسکتے ہیں ؟ تشریح : حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” موت کے وقت مومن جب رحمت کے فرشتے اور رحمت کے سامان دیکھنے لگتا ہے تو فرشتے اس سے پوچھتے ہیں کہ ” کیا تم چاہتے ہو کہ تمہیں پھر دنیا میں واپس کردیا جائے گا “ تو وہ کہتا ہے کہ ” میں اس غموں اور تکلیفوں کے عالم میں جا کر کیا کروں گا مجھے تو اب اللہ کے پاس لے جاؤ۔ “ اور کافر سے پوچھتے ہیں تو وہ کہتا ہے۔ ” مجھے دنیا میں لوٹا دو ۔ “ (از معارف القرآن جلد 6 صفحہ 331 ) یہ تمام آیات عالم الغیب سے تعلق رکھتی ہیں۔ جن کی وضاحت کچھ حدیث اور کچھ قرآنی آیات سے کردی گئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہاں اس دنیا سے جو ایک دفعہ رخصت ہوجاتا ہے وہ دوبارہ اس دنیا میں ہرگز واپس نہیں آسکتا بلکہ پھر وہ قیامت تک عالم برزخ میں رہتا ہے۔ قرآن پاک میں انسانی زندگی کو چار درجوں میں رکھا گیا ہے۔ ایک ہے عالم ارواح جس میں تمام روحوں سے عہد لیا گیا ” کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ “ سب روحوں نے جواب دیا ” کیوں نہیں آپ ہی ہمارے رب ہیں۔ “ اس کو عہد الست کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ پھر دنیا کی زندگی اسی کو عالم ظاہر کہا گیا ہے۔ اور یہ ہی امتحان کا دور ہے۔ یہ مومن کے لیے قید خانہ کہلاتا ہے جبکہ کافر کے لیے بس یہی کچھ ہے۔ یعنی بابر باعیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست مطلب ہے عیش کرلو کیونکہ زندگی دوبارہ نہیں ملے گی۔ کافر یہ زندگی انتہائی غفلت ‘ ناشکر گزاری اور اللہ کی اتنہائی نافرمانی میں گزار دیتا ہے۔ اسی لیے نادم ہو کر دنیا میں دوبارہ آنے کی خواہش کرتا ہے۔ جو کہ ہرگز ممکن نہیں اللہ نے صاف کہہ دیا کہ اب تم عالم برزخ میں رہو۔ یہ عالم برزخ تیسرا دور ہے جس میں قیامت کے آنے تک انسان زندگی گزارے گا۔ یہ دور مومن اور مقبول الٰہی بندوں کے لیے بڑا پر سکون زمانہ ہوگا جبکہ گنہگاروں مشرکوں کے لیے یہ بڑا تکلیف دہ زمانہ ہوگا۔ ان کا عذاب ادھر سے ہی اعمال کے مطابق شروع ہوجائے گا۔ پھر چوتھا دور زندگی کا ہوگا۔ جو قیامت سے شروع ہوگا۔ یہ قیامت کبریٰ ہوگی۔ جس میں سب کچھ ختم ہوجائے گا اور لوگ قبروں میں سے نکل کر میدان حشر میں اللہ کے دربار میں حاضر ہوجائیں گے اور پھر مشرکوں کو ان کی بدنصیبی کی سزا دی جائے گی جس پر وہ اللہ سے آہ وزاری کریں گے توبہ و استغفار کریں گے جو قبول نہ ہوگی اور رب العزت فرمائے گا ” اسی میں ذلت کے ساتھ پڑے رہو اور مجھ سے بات نہ کرو۔ “ آیت 108 یہ سب غیب کی باتیں ہیں جو ہر انسان کو بار بار بتائی جا رہی ہیں تاکہ نیکی کی راہ اختیار کرلے اور توبہ کرے کیونکہ توبہ کا دروازہ ہر وقت کھلا ہے بشرطیکہ موت آنے سے پہلے کرلی جائے۔ موت کے بعد توبہ کا وقت بھی ختم ہوجاتا ہے۔ یہ تو گنہگاروں کا انجام تھا اب نیکو کار پرہیزگار سچے مومنین کے بارے میں فرمان ہے۔ ملاحظہ ہو :
Top