بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Urwatul-Wusqaa - At-Takaathur : 1
وَ اتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْهِ اِلَى اللّٰهِ١۫ۗ ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ۠   ۧ
وَاتَّقُوْا : اور تم ڈرو يَوْمًا : وہ دن تُرْجَعُوْنَ : تم لوٹائے جاؤگے فِيْهِ : اس میں اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف ثُمَّ : پھر تُوَفّٰى : پورا دیا جائیگا كُلُّ نَفْسٍ : ہر شخص مَّا : جو كَسَبَتْ : اس نے کمایا وَھُمْ : اور وہ لَا يُظْلَمُوْنَ : ظلم نہ کیے جائیں گے
(اے لوگو ! ) تم کو کثرت مال کی طلب نے غفلت میں ڈال دیا
لوگو ! تم کو کثرت مال کی طلب نے غفلت میں ڈال دیا 1 ؎ ( الھکم) اصل مادہ ل ہ و ہے اور اس مادہ کے جتنے لفظ قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں ان میں یہ چیزپائی جاتی ہے کہ وہ شخص جو سنجدوگی چھوڑ کر مزاح کی طرف میلان اور جھکائوکر کے اس کے اس فعل کو لھو کہتے ہیں گویا معقول بات سے غفلت میں مبتلا ہونا اور بےکار اور غیرسنجیدہ بات کی طرف پھرجانا ہے۔ ( التکائر) کے معنی ہیں مال جمع کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے باعث تم غفلت میں مبتلا ہوگئے اور سنجیدہ کاموں کو چھوڑ کر غیر سنجیدہ کاموں کی طرف تمہاری رغبت ہوگئی ۔ لوگو ! تم مال جمع کرنے میں اس قدر منہمک ہوگئے کہ قیامت اور آخرت کے معاملہ میں تم غفلت کرنے لگے اور اس معاملہ میں تمہاری مصروفیت اس حد تک بڑھ گئی کہ تم نے آخرت کے بارے میں کبھی بھول کر بھی خیال نہ کیا کہ ہم کو مرنا بھی ہے اور اپنے رب کریم کے سامنے جوابدہی کے لیے پیش ہونا ہے۔ تم مال و دولت کی محبت میں اس قدر ڈوب گئے کہ آخرت اور قیامت کے متعلق تم کو کبھی خیال تک بھی نہ آیا اور دنیا کی لا یعنی باتوں میں تمہاری مصروفیت اس قدر بڑھ گئی کہ کام کی باتوں کی طرف سے تم بالکل غافل ہوگئے اور بلا شبہ یہ حقیقت ہے کہ جو لوگ زیادہ سے زیادہ مال و دولت جمع کرنے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں ان کو بڑی اہم اور ضروری سے ضروری چیزیں فراموش ہوجاتی ہیں اور دولت سمیٹنے کی خواہش جنون کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ اس وقت ان کو نہ تو اللہ تعالیٰ یاد رہتا ہے اور نہ ہی ان کو کبھی موت یاد آتی ہے اور نہ ہی قبر کا وہ تاریک گڑھا جس میں انہوں نے ایک نہ ایک دن آ کر فروکش ہونا ہے۔ یہ ایک ہی خیال میں بس مگن رہتے ہیں کہ جیسے بن پڑے زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرلی جائے۔ ان کی زندہ وجاوید شخصیتیں دیکھنا چاہو تو اپنے ملک کے وزیراعلیٰ ، وزیراعظم اور دوسرے سارے وزراء اور ملک عزیز کی کرسی صدارت و فروکش صاحب نیز دوسرے سارے وزراء ، صوبائی اسمبلیوں کے ممبر حضرات ، قومی اسمبلی کے ممبر اور سینیٹر سب کے سب اس میں داخل ہیں اور ان میں سے اکثر تو اسے ہیں جو تاجر طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں لہٰذا ساری تاجر برادری جو اس ملک کی اہم تجارت ہو قابض ہے اور ان کو دیکھا دیکھی ہر صاحب مال اپنے اپنے مال اور دولت کے انبار کے بڑھانے کے چکر میں ہے اور سب کے سب اس آیت کریمہ کی زد میں ہیں اور ان سب کو مخاطب کر کے قرآن کریم بات کر رہا ہے اور ان کو بتایا جا رہا ہے کہ تم میں سے جو اللہ تعالیٰ کا نام لینے کے دعویدار ہیں وہ بھی اپنے دعویٰ میں مخلص نہیں ، ان کی زبانیں کچھ کہہ رہی ہیں اور ان کے اعمال کچھ واضح کر رہے ہیں ۔ زیر نظر آیت ان سے مطالبہ کر رہی ہے کہ تم وہ لوگ ہو کہ سنبھلنے کی بجائے پھسلتے ہی چلے جا رہے ہو تم اور تمہارا یہ سب مال فانی ہے اس لیے اس مال و دولت کی کثرت چاہتے ہوئے آخت سے غافل مت ہو جائو آنے والے کل نہ تم ہو گے اور نہ تمہاری یہ دولت ہوگی ۔ اس غفلت کا پردہ چاک کرو اور حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرو ورنہ عنقریب تمہاری غفلت کا پردہ خود بخود چاک ہوجائے گا اور تم کو لائن حاضر کرلیا جائے گا اور پھر تم ہو گے اور عذاب دزخ ہوگا اور قریب ہی سے آوازیں بلند ہو رہی ہوں گی ( ذوق انک انت العزیز الکریم) (44 : 49)
Top