یہاں تک کہ تم قبروں میں جا پہنچے
2 ؎ (زرتم) تم نے جا دیکھا۔ تم نے زیارت کی ۔ زیارۃ سے جس کے معنی زیارت کرنے کے ہیں ۔ ماضی کا صیغہ جمع مذکر حاضر اصل میں زور سینہ کے بالائی حصہ کو کہتے ہیں اور اسی اعتبار سے زیارۃ کے معنی سینہ سے کسی کے سامنے ہونے یا کسی کے سنہ کی طرف رخ کرنے کے ہوتے ہیں اور زیارت میں سینہ بہر حال ایک دوسرے کے سامنے آتا ہے۔ ( المقابر) صیغہ منتہیٰ المجموع ظرف مکان المبقرۃ اور المبقرۃ واحد اور اس کے معنی قبرستان کے صحیح ہیں ۔ فرمایا جا رہا ہے کہ تم یہ مال کی کثرت اور ایک دوسرے سے مال میں سبقت لے جانے کی خواہش و آرزو کرتے ہی رہو گے۔ اللہ ناراض ہوتا ہے تو ہو ۔ قوم سے خیانت ہوتی ہو ۔ ملک سے غداری ہوتی ہے تو ہو ۔ اپنے فرائض کی ادائیگی میں بد دیانتی ہوتی ہے تو ہوجائے اگر تم غور کرو گے تو اوپر جن لوگوں کا ذکر ہم نے کیا ہے وہ سب کے سب اس میں بخوشی شریک ہیں اور قرآن کریم کی نظر میں یہ ایسے بد نصیب لوگ ہیں جو صرف اللہ کی ذات اور آخرت ہی کو بھول نہیں گئے بلکہ وہ اپنے آپ کو بھی ساتھ ہی بھول گئے ہیں اس لیے انہوں نے اپنے عہدے اور منصب ، اپنی عزت اور آبرو ، اپنی شخصیت اور شہرت سب کچھ دائو پر لگا دیا ہے اور ہرچیز کو فراموش کر بیٹھتے ہیں۔ ان کی یادداشت میں اگر کچھ ہے تو صرف اور صرف مال و دولت ، عہدہ و اقتدار ہے اور یہ وہی لوگ ہیں جن کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ : ( لو ان لا بن ادم وادیا ً من ذھب لا حب ان یکون لہ ٗ وادیان ولن یملا فاہ ٗ الا التراب ویتوب اللہ علی من تاب) ( بخاری ) ” اگر کسی شخص کے پاس سونے سے بھری ہوئی ایک وادی ہو تو اس کی خواہش ہوتی ہے کہ کاش اس کے پاس ایک کی بجائے سونے سے بھری ہوئی دو وادیاں ہوتیں۔ اس کے منہ کو صرف مٹی ہی بھر سکتی ہے اور اللہ تعالیٰ جس پر چاہتا ہے وہ اپنے قانون کے مطابق لوٹ آتا ہے “۔ اور ایک دوسری حدیث میں اس فرمایا گیا کہ : ( مطرف عن ابیہ اتیت ﷺ و ھو یقرا (الھا کم التکاثر) الا بۃ قال یقول ابن ادم مالی مالی ۔ ھل لک یا بن ادم من مالک الا ما اکلت فافنیت والبست فابلیت وتصدقت فامضیت وما سوی ذلک فذاھب و تارک اللناس) (مسلم) ” مطرف کے والد کہتے ہیں کہ میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ اس وقت ( الھا کم التکاثر) پڑھ رہے تھے۔ فرمایا کہ انسان میرا مال ، میرا مال کہتا ہے۔ اے فرزند آدم کیا تمہارا مال کچھ ہے سوائے اس کے جو تم نے کھالیا اور فنا کردیا یا پہنا اور بوسیدہ کردیا یا صدقہ کیا اور اس مال کو اپنے لیے آگے بھیج دیا تاکہ قیامت کے روز کام آئے اس کے سوا جو کچھ ہے تو اسے لوگوں کے لیے چھوڑ کر چلا جائے گا “۔ اچھا ذرا غور کرو کہ ہمارے یہ زرداری ، مزاری ، لغاری ، دریشک ، کھو سے ، نواب ، نوابزدے ، گورمانی ، دولتانے ، قریشی ، گیلانی ، گردیزی ، دا ہے ، ممدوٹ ، موکل ، قزلباش ، کلاس شیخ ، بخاری فقیر ، مرزائی ، چٹھے ، کھرل ، رجوعے ، ٹوانے ، نون ، کھوکھر ، راجے ، گگھڑ ، گوندل ، جو دھرے ، کھبے ، مکھڈ ، اعوان ، نیازی ، بچھر اور میاں کو تو یہ دنیا چھوڑ کر نہیں جانا ہے یا اگر چھوڑنا ہے تو یہ ساری سرداریاں ساتھ ہی لے جانی ہیں ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ہمارے مفسرین نے قریش کے قبیلے تو گنوائے لیکن موجودہ نا خدائوں کا نام کیوں نہ لیا جب کہ یہ سب ان کے اپنے دور کے ہیں ۔ کیا سید مودودی ، امین احسن اصلاحی ، عبد الماجددریا بادی ، شبیر احمد عثمانی ، احمد علی لاہوری ، پیر کرم شاہ بھیروی ، مفتی محمد شفیع (رح) غلام مرتضیٰ ملک سب کے سب اس دور کے مفسر نہیں ہیں ؟ اوپر کے ان سارے سردروں اور وڈیروں کو مخاطب کر کے کہا جا رہا ہے کہ تم اسی دھن میں مست رہتے ہو کہ ہم بہت بڑے آدمی ہیں یہاں تک کہ تمہاری حیات مستعار کا سورج ڈوب جاتا ہے ، موت کا فرشتہ آ کر تمہاری روح قبض کرلیتا ہے اور تم ہمیشہ کے لیے قبر کے گڑھے میں لٹا دیئے جاتے ہو اور حقیقت کا انکشاف تم پر اس وقت ہوگا جب میدان حشر میں تم کو لا کر ایسی حالت میں کھڑا کر دیا جائے گا جیسی حالت میں تم پہلی بار دایہ کے ہاتھوں چیخ چلا رہے تھے لیکن اس وقت تمہاری چیخنے کی کوئی قیمت تھی اور اب تمہارا رونا اور چیخنا بھی بےکار ہوگا اور سرداروں کی سرداری کا بھی کوئی خیال نہیں کرے گا ۔ سب کو اپنی اپنی پڑی ہوگی۔ ” تجھے کیا پڑی ہے پرائی اپنی نبی ڑ تو “ کے مصداق ہو گے۔