Mafhoom-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 61
فَمَنْ حَآجَّكَ فِیْهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَ اَبْنَآءَكُمْ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَكُمْ وَ اَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَكُمْ١۫ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى الْكٰذِبِیْنَ
فَمَنْ : سو جو حَآجَّكَ : آپ سے جھگڑے فِيْهِ : اس میں مِنْ بَعْدِ : بعد مَا : جب جَآءَكَ : آگیا مِنَ : سے الْعِلْمِ : علم فَقُلْ : تو کہ دیں تَعَالَوْا : تم آؤ نَدْعُ : ہم بلائیں اَبْنَآءَنَا : اپنے بیٹے وَاَبْنَآءَكُمْ : اور تمہارے بیٹے وَنِسَآءَنَا : اور اپنی عورتیں وَنِسَآءَكُمْ : اور تمہاری عورتیں وَاَنْفُسَنَا : اور ہم خود وَاَنْفُسَكُمْ : اور تم خود ثُمَّ : پھر نَبْتَهِلْ : ہم التجا کریں فَنَجْعَلْ : پھر کریں (ڈالیں) لَّعْنَتَ : لعنت اللّٰهِ : اللہ عَلَي : پر الْكٰذِبِيْنَ : جھوٹے
یہ علم آجانے کے بعد اب اگر کوئی اس معاملہ میں تم سے جھگڑا کرے تو ( اے محمد ﷺ اس سے کہو کہ آؤ ہم اور تم خود اور اپنے بیٹوں اور اپنی عورتوں کو بلالیں اور اللہ سے دعا کریں کہ جو جھوٹا ہو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔
رسول اللہ ﷺ کا عیسائیوں سے مباہلہ تشریح : یہ ایک اہم واقعہ کا بیان ہے۔ مدینہ منورہ میں آپ ﷺ کو نو سال ہوچکے تھے اور حجاز پر مسلمانوں کا پورا قبضہ ہوچکا تھا کہ 9 ھ میں محمد ﷺ نے بخران کی طرف ایک فرمان بھیجا۔ جس میں تین باتوں کا ذکر کیا گیا تھا۔ -1 اسلام قبول کرو۔ -2 یا جزیہ ادا کرو۔ -3 یا جنگ کے لئے تیار ہوجاؤ۔ اس پر بخران کے عیسائیوں کی طرف سے ایک وفد آپ ﷺ کے پاس بات چیت کرنے کے لئے آیا۔ انہوں نے اپنے عقیدوں کا اظہار کیا۔ نبی اکرم ﷺ نے ان کو سمجھانے کی بہت زیادہ کوشش کی، مگر وہ لوگ اپنے غلط عقیدوں پر ہی اڑے رہے اس پر رب العزت نے محمد ﷺ سے فرمایا کہ ان عیسائیوں سے مباہلہ کرو۔ مباہلہ کا مطلب ہے کہ دونوں فریق اپنی جان اور اہل و عیال لے کر حاضر ہوجائیں اور پھر رب العزت سے گڑ گڑا کر دعا کریں کہ ہم میں سے جو بھی جھوٹا ہو اس پر اللہ کا غضب نازل ہو اور اللہ کی لعنت ہو۔ اس پر بخران کے وفد نے سوچنے کی مہلت مانگی۔ عیسائی وفد کے سمجھدار لوگوں نے مشورہ دیا کہ ہم سب اصل میں اس بات کو اچھی طرح سمجھ چکے ہیں اور خوب جانتے بھی ہیں کہ محمد ﷺ ہی اللہ کے آخری نبی ہیں اور اس نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں بھی سب کچھ سچ کہا ہے۔ اس صورت میں بنی سے مباہلہ کرنے کا نتیجہ تو یہی ہوگا کہ ہم پر عذاب آن پڑے گا اور تباہی و بربادی ہوجائے گی۔ یوں بخرانی وفد آپس میں مشورہ کرکے محمد ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور مقابلہ کا ارادہ چھوڑ دیا۔ صلح کرکے واپس چلے گئے اور جزیہ دے کر ذمی رعایا کی صورت میں رہنا قبول کرلیا۔ سرولیم میور اپنی کتاب ( Life of Mohammad) کے صفحہ 360 میں لکھتے ہیں : واقعہ میں محمد ﷺ کے ایمان کی پختگی بالکل نمایاں ہے، نیز ان کے اس عقیدے کی شہادت کہ ان کا تعلق عالم غیب سے جڑا ہوا ہے اور اس لئے کہ حق تمام تر انہیں کے ساتھ ہے اور یہ کہ ان کے خیال کے مطابق مسیحیوں کے پاس سوائے غلط سوچ کے اور کچھ نہ تھا۔ از مطالعہ قرآن مصنف مولاناعبدالماجد صاحب لکھتے ہیں کہ سرولیم خود مسلمان نہیں بلکہ عیسائی تھے۔ مگر حق بات کو ماننے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ اگر یہ لوگ دلائل نہ سنیں اور اس بات کو نہ مانیں کہ اللہ ہی واحد الٰہ ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور نہ ہی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اس کے بیٹے ہیں۔ اللہ سب کا خالق ہے اور تمام مخلوق اس کی محکوم ہے۔ اللہ ہی سب پر غالب ہے اور زبردست حکمت والا ہے۔ اگر وہ لوگ کسی صورت بھی حق کو ماننے کو تیار نہیں تو ان کو اچھی طرح جان لینا چاہئے کہ رب العزت ان تمام مفسدوں کو خوب اچھی طرح جانتا ہے اور وہ ان مفسدوں سے اچھی طرح نمٹ بھی لے گا۔
Top