Mafhoom-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 93
كُلُّ الطَّعَامِ كَانَ حِلًّا لِّبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِلَّا مَا حَرَّمَ اِسْرَآءِیْلُ عَلٰى نَفْسِهٖ مِنْ قَبْلِ اَنْ تُنَزَّلَ التَّوْرٰىةُ١ؕ قُلْ فَاْتُوْا بِالتَّوْرٰىةِ فَاتْلُوْهَاۤ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
كُلُّ : تمام الطَّعَامِ : کھانے كَانَ : تھے حِلًّا : حلال لِّبَنِىْٓ اِ سْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل کے لیے اِلَّا : مگر مَا حَرَّمَ : جو حرام کرلیا اِسْرَآءِيْلُ : اسرائیل (یعقوب) عَلٰي : پر نَفْسِھٖ : اپنی جان مِنْ : سے قَبْلِ : قبل اَنْ : کہ تُنَزَّلَ : نازل کی جائے (اترے) التَّوْرٰىةُ : توریت قُلْ : آپ کہ دیں فَاْتُوْا : سو تم لاؤ بِالتَّوْرٰىةِ : توریت فَاتْلُوْھَآ : پھر پڑھو اس کو اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو صٰدِقِيْنَ : سچے
کھانے کی یہ ساری چیزیں (جو شریعت محمدی ﷺ میں حلال ہیں) بنی اسرائیل کے لیے بھی حلال تھیں، البتہ بعض چیزیں ایسی تھیں جنہیں تورات کے نازل کئے جانے سے پہلے اسرائیل نے خود اپنے اوپر حرام کرلیا تھا۔ ان سے کہو، اگر تم سچے ہو تو لاؤ تورات پیش کرو اس کی کوئی عبارت پڑھو
بنی اسرائیل کی حلال و حرام پر بحث تشریح : ان آیات کا شان نزول یہ ہے کہ یہودیوں نے رسول اللہ ﷺ پر اعتراض کیا کہ آپ تو اپنے آپ کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پیرو کہتے ہیں جب کہ آپ وہ چیزیں کھاتے ہیں جو ان پر حرام تھیں، مثلاً : اونٹ کا گوشت اور دودھ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کو کہو اپنی کتاب تورات میں سے یہ حکم دکھائیں۔ یہ کہیں بھی حکم نہیں دیا گیا۔ بلکہ یہ خود انہوں نے اپنے اوپر حرام کر رکھی تھیں۔ ہاں تورات میں کچھ دوسری چیزوں کا ذکر ہے جو ان پر حرام کی گئی تھیں۔ اونٹ کا گوشت اور دودھ کے حرام کرنے کا حکم اللہ کی طرف سے نہ تھا بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اپنی بیماری کی وجہ سے اس کو کھانا بند کیا تو پھر ان کی آل اور اولاد نے بھی اس کھانے کو بند کردیا۔ تورات میں ایسا کوئی حکم موجود نہیں یہ تو خواہ مخواہ اللہ کی طرف غلط بات کو منسوب کر رہے ہیں اور اپنی طرف سے بنائی ہوئی باتوں کو شریعت کا نام دے رہے ہیں اور ایسا غلط کام کرنے والے ظالم اور ناانصاف کہلاتے ہیں۔ کیونکہ اپنی بات کو اللہ کی بات کہہ دینا کس قدر گناہ اور عذاب کی بات ہے ؟ یہود و نصارٰی اس بات پر بڑا فخر کرتے تھے کہ ہم تو ابراہیم (علیہ السلام) کی نسل سے ہیں اور اسلام کا اصل مذہب تو صرف ان ہی کے پاس ہے تو قرآن مجید نے ان کی تمام غلط فہمیاں، غلط بیانیاں اور نافرمانیاں خوب کھول کر بیان کردی ہیں اور بتایا ہے کہ اگرچہ وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہیں لیکن یہ ان کے بتائے ہوئے مذہب سے بہت دور ہیں۔ کیونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تو پکے مسلمان تھے توحید کو ماننے والے اور اللہ رب العزت کے انتہائی فرمانبردار اور مقبول ترین انسان تھے۔ جبکہ یہودی صرف ان کے پیروکار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ بلکہ ان کو چاہیے کہ یہ بھی شرک اور نافرمانی سے توبہ کرکے پکے مسلمان اور توحید کو ماننے والے بن جائیں یعنی اللہ کو ایک مانیں اور آخری نبی حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لے آئیں اور پھر یوں وہ دین حنیف، یعنی دین ابراہیم (علیہ السلام) کے ماننے والے ہوسکتے ہیں جیسا کہ نبی آخر الزماں ﷺ تعلیم دیتے ہیں۔ شرارت، بغاوت اور شرک سے باز آجائیں اور اللہ کی توحید اور رسول ﷺ کی رسالت کو ماننے والے بن جائیں۔ مسلمانوں کو بھی یہی سبق دیا گیا ہے کہ اللہ کی عبادت کریں رسول اللہ ﷺ کی پیروی کریں اور تمام مخلوق اللہ کی بھلائی میں لگے رہیں۔
Top