Mafhoom-ul-Quran - An-Nisaa : 153
یَسْئَلُكَ اَهْلُ الْكِتٰبِ اَنْ تُنَزِّلَ عَلَیْهِمْ كِتٰبًا مِّنَ السَّمَآءِ فَقَدْ سَاَلُوْا مُوْسٰۤى اَكْبَرَ مِنْ ذٰلِكَ فَقَالُوْۤا اَرِنَا اللّٰهَ جَهْرَةً فَاَخَذَتْهُمُ الصّٰعِقَةُ بِظُلْمِهِمْ١ۚ ثُمَّ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُمُ الْبَیِّنٰتُ فَعَفَوْنَا عَنْ ذٰلِكَ١ۚ وَ اٰتَیْنَا مُوْسٰى سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا
يَسْئَلُكَ : آپ سے سوال کرتے ہیں اَهْلُ الْكِتٰبِ : اہل کتاب اَنْ : کہ تُنَزِّلَ : اتار لائے عَلَيْهِمْ : ان پر كِتٰبًا : کتاب مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان فَقَدْ سَاَلُوْا : سو وہ سوال کرچکے ہیں مُوْسٰٓى : موسیٰ اَكْبَرَ : بڑا مِنْ ذٰلِكَ : اس سے فَقَالُوْٓا : انہوں نے کہا اَرِنَا : ہمیں دکھائے اللّٰهَ : اللہ جَهْرَةً : علانیہ فَاَخَذَتْهُمُ : سو انہیں آپکڑا الصّٰعِقَةُ : بجلی بِظُلْمِهِمْ : ان کے ظلم کے باعث ثُمَّ : پھر اتَّخَذُوا : انہوں نے بنالیا الْعِجْلَ : بچھڑا (گؤسالہ) مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا : کہ جَآءَتْهُمُ : ان کے پاس آئیں الْبَيِّنٰتُ : نشانیاں فَعَفَوْنَا : سو ہم نے درگزر کیا عَنْ ذٰلِكَ : اس سے (اس کو) وَاٰتَيْنَا : اور ہم نے دیا مُوْسٰى : موسیٰ سُلْطٰنًا : غلبہ مُّبِيْنًا : ظاہر (صریح)
اہل کتاب آج اگر تم سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ تم آسمان سے کوئی کتاب ان پر نازل کر ائو تو اس سے کہیں بڑا مطالبہ یہ موسیٰ (علیہ السلام) سے کرچکے ہیں۔ اس سے تو انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں اللہ دکھا دو اور اسی سرکشی کی وجہ سے یکایک ان پر بجلی ٹوٹ پڑی تھی، پھر انہوں نے بچھڑے کو اپنا معبود بنا لیا، حالانکہ یہ کھلی کھلی نشانیاں دیکھ چکے تھے۔ اس پر بھی ہم نے ان سے درگزر کیا۔ ہم نے موسیٰ کو صریح دلیل عطا فرمائی
اہل کتاب کی شرارتیں تشریح : اس آیت میں یہود کی بدترین عادات کا ذکر کیا گیا ہے۔ ہوا اس طرح کہ یہود کا ایک گروہ نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور خواہ مخواہ کی حجت بازی شروع کردی۔ کہنے لگے کہ آپ اللہ تعالیٰ سے ایک مکمل کتاب ایک ہی دفعہ پوری اتارنے کو کہیں جیسا کہ ہمارے رسول موسیٰ (علیہ السلام) پوری کتاب لائے تھے، پھر ہم آپ پر ایمان لائیں گے۔ اس پر اللہ رب العزت نے آنحضرت ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے بتایا کہ یہ قوم تو ہمیشہ سے بگڑی ہوئی ہے۔ انہوں نے اپنے انبیاء کو ستایا اور ان کو قتل کیا جس کی وجہ سے ان پر اکثر عذاب آئے، مثلاً بجلی ان پر کڑکی یہ مرگئے، پھر زندہ کئے گئے۔ تھوڑی دیر کے لیے سیدھے ہوجاتے، پھر وہی ہٹ دھرمی، ضد اور نافرمانی کرنے لگتے۔ ان کے بارے میں سورة ٔبقرہ آیت 55 میں تفصیل گزر چکی ہے۔ یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ یہ قوم انتہائی بگڑی ہوئی اور نافرمان ہے۔ انہوں نے تمام نشانیاں دیکھنے کے باوجود بھی اللہ کو چھوڑ کر بچھڑے کو پوجنا شروع کردیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے پھر بھی ان کو معاف کردیا اور موسیٰ (علیہ السلام) کو ان پر بڑائی عطا کی۔ بنی اسرائیل کا قصہ بڑی تفصیل سے گزر چکا ہے اب دوبارہ ذکر ہو رہا ہے۔
Top