Mafhoom-ul-Quran - Adh-Dhaariyat : 50
فَفِرُّوْۤا اِلَى اللّٰهِ١ؕ اِنِّیْ لَكُمْ مِّنْهُ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌۚ
فَفِرُّوْٓا اِلَى : پس دوڑو طرف اللّٰهِ ۭ : اللہ کی اِنِّىْ لَكُمْ : بیشک میں تمہارے لیے مِّنْهُ : اس کی طرف سے نَذِيْرٌ : ڈرانے والا ہوں مُّبِيْنٌ : کھلم کھلا
تو تم لوگ اللہ کی طرف بھاگ چلو میں تمہیں صاف رستہ بتانے والا ہوں۔
اللہ کا پیغام رسول کیلئے اور بندوں کیلئے تشریح : جب اللہ کی تمام نشانیاں کھول کھول کر بتا دی گئیں تو پھر رسول اللہ ﷺ نصیحت فرماتے ہیں کہ عقل سے کام لو اور اسی ایمان کے راستے پر چلو جو میں تمہیں دکھا رہا ہوں۔ اب تو یقین کرلو کہ اللہ واقعی ایک ہی ہے۔ اور میں اسی کی طرف سے بھیجا جانے والا رسول ﷺ ہوں۔ آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ تسلی دیتے ہیں کہ آپ ﷺ گھبرائیں نہیں کیونکہ شروع دن سے ہی انسان کی یہی فطرت رہی ہے کہ وہ توحید کے پیغام سے اسی طرح بھاگتے چلے آئے ہیں جیسے یہ کفار مکہ بھاگ رہے ہیں۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب بھی پیغمبر آئے تو شیطان فطرت لوگوں نے ان کی خوب مخالفت کی سوائے ان چند لوگوں کے جن کو سعادت نصیب ہوئی اور پھر اللہ کا یہ فرمان نبی ﷺ کے لیے کہ ' تم نصیحت کرتے رہو کیونکہ نصیحت مومنوں کو نفع دیتی ہے۔ (55) جو لوگ خر دماغ ہوتے ہیں وہ تو کبھی بھی نیکی اختیار نہیں کرتے لیکن جو نیک فطرت لوگ ہیں وہ نصیحت ضرور قبول کرتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اللہ نے ان کو اور جنوں کو عبادت کے لیے پیدا کیا ہے ان کی عبادت اور ایمان سے اللہ کو ہرگز کوئی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ یہ تو خود ان کے اپنے فائدے کے لیے کہا گیا ہے۔ ان کا فائدہ یہ ہے کہ اس طرح وہ لوگ ادھراُدھربھٹکنے اور ذلیل و خوار ہونے سے بچ کر ایک صاف ستھری بنی بنائی منظم زندگی گزارسکیں اور یوں دنیا و آخرت میں سر خرو ہو سکیں۔ کیونکہ اللہ ہی پیدا کرنے والا رزق دینے والا اور رحم کرنے والا ہے یہ نصیحت دینے کے لیے پیغمبر کا بھیجنا اور آخرت کے تمام راز بتا دینا اللہ کی رحمت کی ایک بہت بڑی دلیل ہے کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ نیکی اختیار کریں پر سکون زندگیاں گزاریں اور پھر آخرت میں بھی اللہ کی رحمتوں کے حقدار بنیں۔ اور یہ سب کچھ اللہ نے نظام بنا رکھا ہے کہ انسان و جن کو ارادہ اور اختیار دے رکھا ہے۔ اس کی مرضی ہے جو راستہ چاہے اختیار کرلے اس میں نہ اللہ کا کام ہے نہ ہی پیغمبر کی ذمہ داری ہے۔ پیغمبر کی ذمہ داری ہے ' راستہ دکھانا اور پھر ہر مسلمان کی یہ ذمہ داری ہے کہ نیکی کرنے کی تلقین کرے اور مومن کی ہر صورت مدد کرے حدیث میں ہے۔ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ' اپنے بھائی کی مدد کر چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ اس پر ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! جب وہ مظلوم ہو تو میں اس کی مدد کرتا ہوں مگر جب وہ ظالم ہو تو فرمائیے کہ میں کس طرح اس کی مدد کروں۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ تو اسے ظلم کرنے سے روک دے کہ یہی اس کی مدد ہے۔ (بخاری) رب العزت بار بار اس خبر کو بیان فرماتے ہیں کہ کائنات انسان کے لیے پیدا کی گئی ہے اور یہ انسان کے ٹھہرنے کی جگہ ہے۔ ایک ایسی تجربہ گاہ جو انسان کو ایسا ماحول حالات اور عمل کرنے کا ایک ایسا کھلا وسیع و عریض میدان مہیا کرتی ہے جو اسے اللہ یا شیطان کیطرف لے جاسکے۔ کائنات انسانی ضروریات کے مطابق اللہ نے بنائی ہے۔ پھر نصیحت سے بھرا ہوا قرآن نازل فرمادیا اور صاف بتا دیا کہ انسان و جن کی تخلیق کا مقصد عبادت ہے۔ عبادت کا مطلب یہ نہیں کہ چند ظاہری رکوع و سجود کرلیے بلکہ عبادت کی روح یہ ہے کہ اپنی زندگی اللہ کی مرضی کے مطابق بسر کی جائے اور اس کی پہلی شرط اور آخری شرط یہی ہے کہ معرفت (اللہ کی پہچان) کا وہ درجہ حاصل کرلیا جائے کہ جس کی تعریف الفاظ میں بیان نہ ہوسکے۔ یہ ایک روحانی درجہ ہے جس کو حاصل کرنے کے لیے دو ضروری خیال اور عمل ہیں۔ 1 ۔ ہر حال میں اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے ' چلتے پھرتے غرض زندگی کے ہر سانس میں اللہ کی یاد کا احساس۔ 2 ۔ کائنات کی تخلیق اور اپنی تخلیق پر ہر دم غور و فکر کرنا۔ ایسے ہی لوگ اپنی زندگی کے بلند مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور اللہ کے مقبول ترین بندوں میں شامل کرلیے جاتے ہیں۔ اللہ جل شانہ ایسے لوگوں کے لیے فرماتے ہیں۔ اے نیک مطمئن روح ! واپس چل اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی پس شامل ہوجا میرے بندوں میں اور داخل ہوجا میری جنت میں۔ (سورۃ الفجر آیات 27 تا 30) اور نافرمان لوگوں کے لیے اللہ نے فرمایا۔ ' آخر تو تباہی ہے کفر کرنے والوں کیلئے اس روز جس کا انہیں خوف دلایا جا رہا ہے۔ یہ کہنا یا سمجھ لینا کہ مذہب ایک فریب ہے انتہائی بےوقوفی کی بات ہے کیونکہ اس طرح خود کو ان تمام پابندیوں سے آزاد کرلینے کا ارادہ ہے جو سماجی اخلاقی مذہبی انفرادی اور مجموعی نظام حیات کو درست رکھنے کے لیے بےحد ضروری ہیں۔ مشہور جرمن فلسفی ” کانٹ “ اللہ کے تصور سے انکار کرتا ہے مگر اخلاقی پہلو سے وہ مذہب کی علمی معقولیت کو مانتا ہے۔ جو لوگ آخرت کو فرضی تصور کہتے ہیں ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ ایک فرضی چیز ہماری زندگی کے نظم و نسق کے لیے اس قدر ضروری کیوں ہے ؟ آخرت پر یقین نہ کرنے والے اور جانور میں کوئی فرق نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ' عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کو مطیع کرے اور موت کے بعد کے لیے عمل کرے اور احمق وہ ہے جس کا نفس اپنی خواہشات کی پیروی کرے اور اللہ سے امیدیں باندھے۔ لہٰذا اللہ پر یقین اور آخرت پر یقین ہمارے بہت سارے مسائل حل کردیتا ہے۔ آپ جب بھی کسی پریشانی میں مبتلاء ہوجائیں۔ ضرورت چھوٹی ہو یا بڑی، دنیاوی ہو یا دینی ہو صرف اپنے رب کی طرف رجوع کریں اور دل کی گہرائیوں سے اس سے مدد مانگیں وہ کبھی مایوس نہیں کرے گا اور فوری طور پر آپ کو اس عمل سے انتہائی سکون اور اطمینان حاصل ہوجائے گا۔ انشاء اللہ العزیز۔ خلاصہ سورة الذاریات یہ سورت انسان کی جسمانی، روحانی، ذہنی ' سماجی ' انفرادی اور اجتماعی بیماریوں کا اکسیر نسخہ ہے۔ شرط یہ ہے کہ اس کو غور سے پڑھا جائے اور اس پر خوب تفکر و تدبر کیا جائے۔ اس میں مومن کے لیے نصیحت اور خوشخبری ہے جبکہ کافر کے لیے نصیحت اور تنبیہہ ہے جو چاہو کما لو۔ سچ ہے کہ حیات خود نہیں بنتی بنائی جاتی ہے۔ چراغ خود نہیں جلتے جلائے جاتے ہیں۔ دولت عزت کے شوکت حکمت کے سلطنت عبادت کے صورت سیرت کے اور شجاعت سخاوت کے مقابلے میں ہیچ ہے۔ (الحمد للہ سورة الذاریات مکمل ہوئی)
Top