Mafhoom-ul-Quran - Nooh : 15
اَلَمْ تَرَوْا كَیْفَ خَلَقَ اللّٰهُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًاۙ
اَلَمْ تَرَوْا : کیا تم نے دیکھا نہیں كَيْفَ : کس طرح خَلَقَ اللّٰهُ : پیدا کیا اللہ نے سَبْعَ سَمٰوٰتٍ : سات آسمانوں کو طِبَاقًا : تہ بہ تہ
کیا آپ نے نہـیں دیکھا کہ اللہ نے سات آسمان کیسے اوپر تلے بنائے ہیں
اللہ کی نعمتیں تشریح : کائنات کی ترتیب اس کا نظام سب کا سب حیرت انگیز پر آسائش اور ناقابل فہم ہے۔ گو کہ سائنس دان تحقیق و جستجو میں لگے رہتے ہیں اور جو قرآنی آیات کی روشنی میں تحقیق کرتے ہیں وہی مسلم سائنس دان زیادہ کامیاب رہے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ علم الافلاک فزکس، حیاتیات، بیالوجی وغیرہ وغیرہ تاریخ کے مطالعے سے یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے کہ تمام علوم کی جڑیں مکمل طور پر مسلم سائنس دانوں کے کئے ہوئے کاموں ہی سے نکلتی ہیں۔ مثلاً ابن عربی، جابر خراسانی، ابن سینا وغیرہ ایک عام انسان کے لئے اور ایک خاص انسان کے لیے آسمانوں کا ذکر چاند، سورج اور زمین کا ذکر انسان کی پیدائش، مرجانا زمین میں دفن ہوجانا پھر دوبارہ جی اٹھنا، زمین کو فرش کی طرح استعمال کرنا وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب کچھ اللہ کے وجود اس کی حاکمیت، خلاقیت، عظمت اور قدرت کے اظہار کا ذریعہ ہیں۔ عام آدمی ان سب کچھ سے فائدے اٹھاتا ہے اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور اسی کو اپنا مالک و خالق سمجھ کر اس کا حکم مانتا ہے اور یوں سرخ رو ہوجاتا ہے۔ خاص بندے بھی یہی سب کچھ کرتے ہیں مگر وہ ان اشارات کو جو قرآن پاک میں اکثر دیئے گئے ہیں ان پر تفکر و تدبر، تحقیق و جستجو کرتا ہے نئی نئی علم کی راہیں نکالتا ہے اور ایمان کی دولت سے اور بھی زیادہ مالا مال ہوجاتا ہے۔ دوسروں کو بھی اپنے علم کے فائدے پہنچاتا ہے اور خود اس طرح اللہ کا مقبول بندہ بن جاتا ہے۔ لیکن افسوس ہے ان لوگوں پر جو دیکھتے ہیں جانتے ہیں مگر پھر بھی اپنی ضد پر اڑے رہتے ہیں ان کو نہ مظاہر قدرت جگا سکتے ہیں نہ رسول نہ کتاب بلکہ وہ کفر وشرک کے اندھیروں کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگ دنیا کی ابتدا سے موجود رہے موجود ہیں اور ہمیشہ موجود رہیں گے کبھی تعداد کم ہوگئی کبھی درمیانی اور کبھی بہت زیادہ یہ کمی زیادتی ہمیشہ ہوتی رہتی ہے۔ ایسے ہی نافرمان، ضدی اور ہٹ دھرم لوگ سیدنانوح (علیہ السلام) کے پلے پڑے کہ جو صدیوں کی تعلیم و تربیت کے بعد بھی راہ خدا پر چلنے کو تیار نہ ہوئے یہاں تک کہ سیدنانوح (علیہ السلام) نے عاجز آکر اللہ سے یہ دعا کی کہ اے میرے رب ! یہ لوگ میرے کہنے پر نہیں چلے اور ایسوں کے تابع ہوئے جن کو ان کے مال اور اولاد نے نقصان کے سوا کچھ فائدہ نہیں دیا۔ اور وہ بڑی بڑی چالیں چلے۔ اور کہنے لگے کہ اپنے معبودوں کو ہرگز نہ چھوڑنا۔ اور ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر ( یہ سب کفار کے بنائے ہوئے مشہور بتوں کے نام ہیں) کو کبھی ترک نہ کرنا۔ پروردگار ! انہوں نے بہت لوگوں کو گمراہ کردیا ہے۔ (آیات 24, 23, 22, 21) اس دعا کے جواب میں رب العزت نے ان کو پانی کے طوفان کا عذاب دیا جو مسلسل کئی دن رات آسمان سے برستا رہا اور زمین میں سے پھوٹتا رہا۔ اس عذاب کے آنے سے پہلے خالق العٰلمین نے سیدنانوح (علیہ السلام) کو حکم دیا تھا کہ کشتی بناؤ اور اس میں نیک مردوں، عورتوں اور جانوروں پرندوں کے ایک ایک جوڑے کو سوار کرلو۔ سو ایسا ہی کیا۔ صرف یہی لوگ اور جانور بچے باقی سب دنیا کے لوگ ڈوب کر فنا ہوگئے۔ اور یوں دنیا خبیث فطرت شیطان کے دوستوں سے پاک صاف ہوگئی اور سیدنانوح (علیہ السلام) پھر سے افزائش نسل اور پیداوار بڑھانے میں مصروف ہوگئے۔ اور اپنا مقرر کردہ کردار اور عمر ختم ہونے پر دنیا سے رخصت ہوگئے آپ کے بعد پھر جس قوم نے عروج حاصل کیا وہ قوم عاد ہے۔ پھر قوم ثمود۔ یہ زبردست قومیں تھیں مگر بد اعمالیوں کی وجہ سے نیست و نابود ہوگئیں۔ یہ فطرت کا دستور ہے قوموں کا عروج وزوال ہوتا چلا آیا ہے۔ پھر کئی پیغمبر آئے اور قومیں برباد ہوگئیں۔ آخر میں آخری نبی ﷺ آخری دین اور آخری کتاب لے کر دنیا میں آئے۔ جنہوں نے ایک ایسا دستور حیات دنیا کو دیا جو کسی خاص قوم، عہد یا ملک کے لیے نہیں بلکہ یہ عالمگیر دستور حیات ہے۔ جس میں مندرجہ ذیل قوانین کو بنیادی حیثیت دی گئی ہے۔ عالمگیر معاشرہ مساوات۔ انسانی حقوق کی حفاظت، عدل و انصاف، تمام دنیا کے تنازعات کا پر سکون حل، معاشی و معاشرتی اصلاح، پوری دنیا کے امن کا لحاظ، معاہدات کی پابندی، سفیروں سے بہترین معاملات کی راہیں صلح اور جنگ کے بین اقوامی اصول اوراقتصادی امداد، خوف خدا کی تشہیر اور انسانیت کا احترام۔ جو قوم ان تمام بہترین اصول و ضوابط کی پابند ہوگی۔ دنیا میں سر فہرست رہے گی۔ جیسا کہ اسلام کے عالمی سفر کی ابتدا جناب رسول اللہ ﷺ سے ہوئی باوجود مالی کمی اور مضبوط مخالفت اور افرادی کمی کے آپ ﷺ کو بہت قلیل عرصہ میں بہت عظیم کامیابی ہوئی۔ کیا ہی اچھا ہو اگر ہم پچھلی قوموں کے عروج وزوال کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو دوبارہ بچا لیں۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں۔ بس صرف ہر شخص مسلم بن جائے اور قرآن وسنت کی طرف پوری توجہ، یقین اور محنت سے قدم بڑھائے ایسے ہی پر اعتماد بندوں کی اللہ مدد فرماتا ہے۔ یہ اس کا وعدہ ہے۔ بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (سورۃ بقرہ) ( اے محمد ﷺ ! ) ہم نے تم کو فتح دی، فتح بھی صریح و صاف تاکہ اللہ تمہارے اگلے اور پچھلے گناہ بخش دے اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دے اور تم کو سیدھے رستے پرچلائے اور اللہ تمہاری زبردست مدد کرے۔ وہی تو ہے جس نے مومنوں کے دلوں پر تسلی نازل فرمائی تاکہ ان کے ایمان کے ساتھ اور ایمان بڑھے۔ آسمانوں اور زمین کے لشکر سب اللہ ہی کے ہیں اور اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔ (سورۃ الفتح آیات 1 تا 4) اسی طرح جب رسول اللہ ﷺ ہجرت کے چھٹے سال حدیبیہ سے لوٹ کر مدینہ تشریف لائے تو اللہ نے آپ ﷺ کو فتح خیبر کا وعدہ دیا۔ اسی طرح کئی واقعات اس بات کا ثبوت دیتے ہیں کہ جو لوگ مومن ہیں اللہ سے ڈرتے ہیں اس کے لیے رکوع و سجود کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی مدد ضرور کرتا ہے اور ان کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتا۔ مگر گناہگار نافرمان کفار اور مشرکین اس کے عذاب سے ہرگز بچ نہیں سکتے۔ ان کو اپنی مشرکا نہ حرکات کی سزا اس دنیا میں بھی ضرور ملتی ہے اور آخرت میں بھی وہ کبھی بھی عذاب سے بچ نہ سکیں گے۔ جیسا حال قوم نوح (علیہ السلام) کا ہوا۔ قرآن میں آیا ہے۔ آخر وہ اپنے گناہوں کے سبب پہلے غرق کردیئے گئے پھر آگ میں ڈال دیئے گئے۔ (سورۃ النوح) خلاصہ سورة النوح سورۃ النوح بڑی سبق آموز ہے۔ صرف ان لوگوں کے لیے جو عقل سمجھ رکھتے ہیں اور اپنے نفس پر پوری طرح قابو رکھتے ہیں۔ کیونکہ یہ دنیا انسان کو چاروں طرف سے دنیاوی لذات، خواہشات اور مکروہات سے گھیرے ہوئے ہے۔ ان تمام کو مناسب طریقہ سے اور اللہ کی بتائی ہوئی حدود میں رہ کر استفادہ حاصل کرنا ہی انسا نِ کامل ہونے کا ثبوت ہے۔ سیدنانوح (علیہ السلام) کی قوم ان تمام حدود سے نکل چکی تھی اور اس قدر بگڑ چکی تھی کہ کسی طرح بھی سدھرنے کا ارادہ نہ رکھتی تھی تو ان کے نبی بھی عاجز آگئے تو ان کی تباہی کی دعا انہوں نے اللہ سے کی اور وہ قبول ہوگئی۔ اللہ بےحد رحیم و کریم، غفورر حیم اور الحق الوکیل (سچا کارساز) ہے اس کو اپنے بندوں سے بےحد پیار ہے۔ لیکن جب اس کے بندے اس کے پیار اور مہربانی سے ناجائز فائدہ اٹھائیں۔ اس کو بھول جائیں اس سے دوری اختیار کریں اور کسی راہبر کی آواز کو بھی نہ سنیں بلکہ الٹا اسی کا مذاق اڑائیں تو پھر وہ بری طرح ناراض ہوجاتا ہے اور یاد رکھنا چاہیے اس کا غصہ بڑا سخت اور اس کی سزا بڑی درد ناک ہے۔ اس کی سزا نہ صرف آخرت میں ہی ملے گی بلکہ دنیا میں بھی مل جاتی ہے۔ جیسا کہ قرآن پاک کے مطابق قوم نوح (علیہ السلام) ، عاد، ثمود اور بیشمار قوموں کی تباہی عذاب کی صورت میں ہوئی۔ جبکہ ماضی قریب میں بیشمار ایسے تاریخی واقعات ہمیں سمجھانے کے لیے ملتے ہیں مثلاً مولانا وحیدالدین خان صاحب لکھتے ہیں چین کے صوبہ شنسی کا زلزلہ جو 1556 ء میں آیا اس میں آٹھ لاکھ سے زیادہ لوگ ہلاک ہوگئے۔ اسی طرح یکم نومبر 1755 ء کو پرتگال میں زلزلہ آیا جس نے لزبن کا پورا شہر تباہ کردیا، اس زلزلہ میں چھ منٹ کے اندر تیس ہزار آدمی ہلاک ہوگئے، تمام عمارتیں مسمار ہوگئیں۔ اسی نوعیت کا ایک شدید زلزلہ 1897 ء میں آسام میں آیا تھا جو دنیا کے پانچ بڑے زلزلوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس سے شمالی آسام میں ہولناک تباہی آئی، اس زلزے نے دریائے برہم پتر کا رخ بدل دیا اور ایورسٹ کی چوٹی ابھر کر سو فٹ اوپر چلی گئی۔ وہ دہشت ناک منظر جو زلزلہ کی تباہی کے بعد منظر عام پر آتا ہے وہ اس بات کا زندہ ثبوت ہے۔ کہ قیامت کیسے آئے گی اور انسان کس قدر بےبس ہے اور زمین کا مالک کس طرح زمین کے موجودہ نظام کو توڑنے پر پوری طرح قادر ہے۔ (از مذہب اور جدید چیلنج) یہ سب تو ہمیں جگانے کے لیے کہ اللہ قادر مطلق ہے اور بندہ عاجز و بےبس ہے، کافی ہے۔ ان لوگوں کے بارے میں مذہبی اور اخلاقی کردار کا عمل تو نہیں بہرحال یہ اللہ کے غضب کا شکار ضرور ہوئے ہمیں بھی محتاط رہنے کی بڑی سخت ضرورت ہے۔ خود بھی نیکی کریں اور دوسروں کو بھی نیکی کی ہدایت کریں تاکہ اللہ کی رحمت، بخشش اور انعام کے حقد ار بنیں۔ اللہ ہمیں اس کی توفیق عطاء فرمائے آمین۔ نہیں پہنچتی کوئی تکلیف سوائے اللہ کے حکم کے اور جو کوئی یقین لائے اللہ پرتو اللہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے اور اللہ ہر چیز سے باخبر ہے۔ (تغابن : 11) غرض بندے کا اللہ سے غافل ہونا کسی صورت بھی اس کے لیے فائدہ مند نہیں نہ اس دنیا میں نہ آخرت کی دنیا میں۔ یا اللہ ہمیں گناہوں سے بچا اور ہم سے درگزر کر۔ ( آمین ) ۔ ( الحمد اللہ سورة نوح مکمل ہوئی )
Top