Tadabbur-e-Quran - Nooh : 15
اَلَمْ تَرَوْا كَیْفَ خَلَقَ اللّٰهُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًاۙ
اَلَمْ تَرَوْا : کیا تم نے دیکھا نہیں كَيْفَ : کس طرح خَلَقَ اللّٰهُ : پیدا کیا اللہ نے سَبْعَ سَمٰوٰتٍ : سات آسمانوں کو طِبَاقًا : تہ بہ تہ
کیا تم نے دیکھا نہیں کہ کس طرح اس نے بنائے تہ بہ تہ سات آسمان
چند آیتیں بطور تضمین: یہ چھ آیتیں حضرت نوح علیہ السلام کی تقریر کا حصہ بھی ہو سکتی ہیں لیکن میرا ذہن اس طرف جاتا ہے کہ یہ بطور تضمین اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت نوح علیہ السلام کی تقریر کی تکمیل کے لیے ہیں۔ اس طرح کی تضمین کی متعدد مثالیں پچھلی سورتوں میں گزر چکی ہیں۔ اس کے تضمین ہونے کا قرینہ یہ ہے کہ آیت ۲۱ سے حضرت نوحؑ کی اس تقریر کا بقیہ حصہ آ رہا ہے جس کا آغاز ’قَالَ نُوْحٌ رَّبِّ‘ سے ہوا ہے۔ اگر آیات ۱۵-۲۰ بھی حضرت نوح علیہ السلام کی تقریر ہی کا حصہ ہوئیں تو ان کے بعد ’قَالَ نُوْحٌ رَّبِّ‘ کے اعادہ کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ اعادہ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کے لیے ہے کہ اوپر کی آیات بیچ میں بطور تضمین آ گئی تھیں۔ آگے کے حصہ کو حضرت نوح علیہ السلام کی دعا کے ساتھ مربوط کرنے کے لیے یہ ظاہر فرما دیا کہ یہ حضرت نوح علیہ السلام کا قول ہے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی سب سے زیادہ واضح نشانی: ’أَلَمْ تَرَوْا کَیْْفَ خَلَقَ اللہُ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا‘۔ یہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کائنات کی سب سے زیادہ نمایاں نشانی کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جو خدا یہ تہ بہ تہ ساتوں آسمان پیدا کرنے پر قادر ہو گیا کیا اس کے لیے تم کو دوبارہ پیدا کر دینا ناممکن ہو جائے گا؟ یہ وہی دلیل ہے جو ’ءَاَنْتُمْ أَشَدُّ خَلْقًا أَمِ السَّمَآءُ بَنَاہَا‘ (النازعات ۷۹: ۲۷) (کیا تمہارا پیدا کرنا زیادہ مشکل ہے یا آسمان کا جس کو بنایا) کے الفاظ میں بیان ہوئی ہے اور جو ذرا مختلف اسلوب میں پچھلی سورہ کی آیات ۴۰-۴۱ میں بھی گزر چکی ہے۔ ’طِبَاقًا‘۔ یعنی تہ بہ تہ۔ اس لفظ سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ کپڑے کی تہوں کی طرح آسمان کی بھی سات تہیں ہیں بلکہ مقصود یہ ہے کہ الگ الگ ایک سے ایک بلند سات عالم ہیں اور ان کے الگ الگ سات آسمان ہیں۔ اس طرح کی باتیں جو قرآن میں بیان ہوئی ہیں اللہ تعالیٰ کی غیر محدود قدرت کا ایک اجمالی تصور دینے کے لیے بیان ہوئی ہیں۔ ان پر اجمالی ایمان ہی کافی ہے۔ صحیح حقیقت اس دن ظاہر ہو گی جس دن پردہ اٹھے گا۔ اس پردے کو اٹھانا اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کے بس میں نہیں ہے۔ ابھی ہماری سائنس کی رسائی بہت محدود ہے اور جتنی بھی اس کی رسائی ہوئی ہے اس سے حقیقت کے انکشاف کے بجائے انسان کی حیرت ہی میں اضافہ ہوا ہے۔ اصل حقیقت آخرت ہی میں کھلے گی۔
Top